مسیحا سے جادوگر تک

210

اسد عمر کو وزیر خزانہ کے عہدے سے کیا ہٹایا گیا کہ رخصت ہونے والوں کی اس قطار میں کئی اور نامور ارکان کابینہ بھی کھڑے پائے گئے۔ اس طرح آٹھ ماہ کے عرصے میں وفاقی کابینہ پہلی اتھل پتھل کا شکار ہوئی۔ کابینہ کی تشکیل کے وقت ہی وزیر اعظم عمران خان نے تمام ارکان پر واضح کر دیا تھا کہ وزراءکا عہدہ ان کی کارکردگی سے مشروط ہوگا اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرنے والوں کو عہدوں سے ہٹایا جائے گا۔ عمران خان کے اس واضح انتباہ کے باوجود بہت سے وزراءنے کارکردگی کو بہتر بنانے میں دلچسپی نہیں لی۔ آٹھ ماہ میں وزرا کی کارکردگی نے حکومت کا کوئی نقش قائم ہونے ہی نہیں دیا۔ عوام کی خدمت اور انہیں اشرافیہ اور جنم جنم کی حکمران کلاس سے بچانے کے نعروں کے ساتھ اقتدار میں آنے والی پی ٹی آئی اپنا عوام دوست امیج قائم کرنے میں ناکام رہی۔ روپے کی قدر میں کمی، پٹرولیم مصنوعات، ادویات اور اشیائے خور ونوش میں روز افزوں اضافہ نے اس حکومت کا عوام دوست کے بجائے کوئی اور ہی تاثر قائم کیا۔ حکومت کے قدم زمین پر ٹک رہے تھے نہ ہی سہار ے کی کوئی شاخ اس کے ہاتھ میں آرہی تھی۔ حکومت کٹی ہوئی پتنگ کی طرح حالات کی ہواﺅں کے دوش پر اِدھر سے اُدھر اُڑتی جا رہی تھی۔ معاشی حالات کی سنگینی اور ماضی کی تباہ کاریوں سے انکار قطعی ممکن نہیں مگر حکومت اپنی سمت کا تعین کرتی ہوئی بھی نظر نہیں آرہی تھی۔ چند ایک وزراءہی اپنا کام بطریق احسن کر رہے تھے۔ اکثریت ٹی وی پر حاضریاں لگوانے ہی کو اعلیٰ کارکردگی کا معیار جان رہے تھے۔
عمران خان بڑے دعوﺅں اور امیدوں کے ساتھ تو برسرا قتدار آئے تھے مگر وہ روایتی طریقہ انتخاب کے ذریعے اور قدم قدم پر ”اسٹیٹس کو“ کے محافظ الیکٹ ایبلز کے ساتھ مفاہمت کرکے ہی برسر اقتدار آئے ہیں۔ یہی الیکٹ ایبلز ان کی حکومت کے گلے کی پھانس بن کر رہ گئے ہیں۔ پارلیمانی مجبوریوں اور عددی کمزوریوں کے باعث ان کے لیے پہلے مرحلے پر اسٹیٹس کو توڑنا ممکن نہیں تھا۔ اسی لیے وہ اپنی رفتار دھیمے کیے ہوئے رہے اور وہ وزراءکو ناقص کارکردگی کو بھی برداشت کرتے رہے۔ اس برداشت کی پالیسی میں عوام کا کچومر نکلتا چلا گیا۔ جب پانی سر کے اوپر سے گزر گیا تو کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ کا عمل شروع ہوگیا۔ کابینہ میں حالیہ تبدیلی اگر محض چہروں کی تبدیلی ثابت ہوئی تو پھر اس سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ عمران خان کے پاس سسٹم کو بچانے کے لیے وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے۔ حکومت کو پہلی فرصت میں اپنا عوام دوست نقش قائم کرنا چاہیے یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی نظرآئے گی۔ عوام چاند ستارے نہیں مانگتے صرف اپنی زندگی میں تھوڑا سا ریلیف چاہتے ہیں تاکہ ان کی اوقات اور زندگی کے لمحات تلخ سے تلخ تر نہ ہوں۔ اسد عمر کی وزارت خزانہ کے آٹھ ماہ جس طرح گزرے اس کے بعد لوگوں کا ”معاشی مسیحا“ سے دل اُچاٹ ہو گیا تھا اور وہ پرویز مشرف دور کے کسی ”معاشی جادوگر“ کا انتظار کرنے اور دعائیں مانگنے لگے تھے۔ وہ جادوگر ٹی وی پر بلاشبہ اُلٹے سیدھے اعداد وشمار بیان کرکے عام آدمی کی خوش حالی کی تصویر تو پیش کرتے تھے مگر اپنے جادوئی کمالات سے مہنگائی کو قابو میں رکھنے میں بھی کسی حد تک کامیاب رہتے تھے۔ عام آدمی کو زمین پر ان کی بیان کردہ خوش حال جنت گو کہ خورد بین سے بھی دکھائی نہیں دیتی تھی مگر اس کے دن نسبتاً آسان گزر جاتے تھے۔ ایسے ہی ایک معاشی جادوگر شوکت عزیز بھی تھے جو اپنی صلاحیتوں کا کمال دکھاتے دکھاتے وزیر اعظم بن بیٹھے۔ اسد عمر معاشی مسیحائی کے نام پر وزیر اعظم عمران خان کا انتخاب تھے اور قوم بھی ان سے راتوں رات کسی معجزے کی توقع لگائے بیٹھی تھی مگر ان کی مسیحائی کچھ یوں ہوتی چلی گئی
یہ مسیحائی بھی کیا خوب مسیحائی ہے
چارہ گر موت کو تکمیلِ شفا کہتے ہیں
اسد عمر کی معاشی پالیسیوں کا سار ابوجھ عام آدمی اور کاروباری طبقات پر منتقل ہوتا جا رہا تھا اسی ماحول میں ایک معاشی جادوگر کی آمد کا انتظار کیا جانے لگا تھا۔ نصف درجن ناموں کی فہرست میں قرعہ¿ فال حفیظ شیخ کے نام نکل آیا جو ماضی میں کئی مواقع پر جادوگر ٹیم کا حصہ رہ کر اپنے کمالات دکھا چکے ہیں۔ اسد عمر اپنا نامہ ¿ عمل لے جا چکے ہیں۔ ان کے پاس اپنا دفاع کرنے کو اب بھی کچھ زیادہ نہیں۔ وہ ایک قابل ذہین اور معصوم صورت شخصیت تھے اور پاکستان کی معیشت کا بحران ان کی صلاحیتوں سے لگا نہیں کھاتا تھا۔ یہ فضاءایک جادوگر اور چابک دست شخصیت اور ٹیم کا تقاضا کر رہی تھی۔ حکومت نے حفیظ شیخ کو اس منصب پر متمکن کر دیا۔ ان کے کرسی سنبھالتے ہی بازار حصص کی اُداسی اور ویرانی کچھ کم ہوئی اور کاروبار میں مندی نے تیزی کی جانب مڑنا شروع کر دیا۔ اسد عمر نے امریکا سے واپسی پر آئی ایم ایف سے معاملات طے ہوجانے کی نوید سنائی تھی اور شاید اس نوید کے ساتھ اسد عمر کا کام ختم ہو چکا تھا اور یہیں سے حفیظ شیخ کا کردار اور کام شروع ہورہا تھا گویا کہ اب آئی ایم ایف کو اپنے قرض کی نگرانی اور حسب ہدایت استعمال کے لیے ایک آزمودہ اور معتمد شخص کی ضرور ت تھی اور وہ شخصیت حفیظ شیخ قرار پائے۔ قرض اور لین دین کے چکر میں حالات کا جبر یہی ہوتا ہے کہ یہاں لینے والے ہاتھ کے پاس شرائط منوانے اور ناز نخرے دکھانے کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں۔ اس بے رحم کھیل میں دینے والا ہاتھ بالابھی رہتا اور اسی شرائط اور خواہشات بھی حاوی اور مقدم قرار پاتی ہیں۔ اسی لیے اہل نظر فقر وقناعت اور اپنے جامے میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ حفیظ شیخ کا جادوئی کمالات پر شک وشبہ تو نہیں مگر پاکستان کا معاشی بحران اس قدر گہرا اور طویل ہے کہ راتوں رات قابو پانا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔