اسد عمر کے بارے میں تو عمران خان نے فیصلہ کرلیا‘ اب عمران خان کے بارے میں فیصلہ کون کرے گا یہ کوئی معمولی سوال نہیں ہے۔ اسد عمر سے گلہ کیا گیا کہ چھ سال پہلے کہا گیا کہ تیاری کرو لیکن انہوں نے تیاری نہیں کی، خود عمران خان تو حکومت پانے کے لیے بائیس سال سے سیاست میں ہیں ان کی اپنی تیاری کتنی تھی؟ صرف آٹھ ماہ۔ جی ہاں صرف آٹھ ماہ ہی میں کابینہ میں اتنا بڑا رد وبدل، معلوم ہوتا ہے کہ کپتان نے میچ کے دوران ہی ٹیم بدل ڈالی‘ ڈر ہے کہ کہیں یوٹرن نہ لے لیں‘ پی ٹی آئی میں واحد اسد عمر تھے جو وزیر خزانہ بن سکتے تھے ان کے بعد اتنی صلاحیت کا حامل کوئی شخص نہیں ہے جو اس عہدے پر آئے اسی لیے باہر سے وزیر خزانہ لینا پڑا وزیر خزانہ کے استعفے اور متعدد وفاقی وزرا کے قلم دانوں میں رد وبدل نے ہلچل مچادی ہے۔
اسد عمر تحریک انصاف کا چہرہ تھے اور اس کے آسمان کا روشن ستارہ تھے اس کے اوپننگ بلے باز تھے۔ جب تحریک انصاف میں آئے تو عمران خان کی وجہ سے آئے، ایک ملاقات میں کہا کہ کبھی تحریک انصاف جائن نہ کرتا لیکن عمران خان کے وژن نے ایسا کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ پھر انتخابات کی باری آئی تو سوال اٹھا کہ انہیں ٹکٹ کس حلقے سے دیا جائے‘ فیصلہ ہوا کہ اسلام آباد سے، لیکن اسلام آباد کی تحریک انصاف مزاحمت کرتے ہوئے کھڑی ہوگئی‘ تحریک انصاف کی سینیٹر سیمی ایزدی‘ خرم لالہ جی اور دیگر سب گواہ ہیں‘ عمران خان نے کہا انہیں اسمبلی میں اسد عمر چاہیے کہ اسحاق ڈار سے ٹکر لینی ہے‘ عمران خان کی اس دلیل پر اسلام آباد تحریک انصاف خاموش ہوگئی‘ جاوید ہاشمی نے اسلام آباد کے جیتی ہوئی نشست چھوڑی تو اسد عمر کو ٹکٹ ملا‘ ضمنی انتخاب جیت کر اسمبلی میں پہنچے اسمبلی میں اسحاق ڈار کے مقابلے میں کھڑے ہوتے تو پوری تحریک انصاف‘ تقریر کے لیے اپنا وقت انہیں دیتی رہی‘ حالیہ انتخابات میں ان کی انتخابی مہم یہی رہی کہ انتخابی مہم تو کارکن چلائیں میں تو وزارت خزانہ کی تیاری کررہا ہوں۔ ساری تحریک انصاف وزیر خزانہ کے لیے ووٹ مانگتی رہی اب وہ تحریک انصاف خاموش ہے۔ اسلام آباد کیا پورے پاکستان میں کسی پرانے کارکن کو تحریک انصاف میں جگہ نہیں ملی۔
ادھر عمران خان نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا ادھر آزمائش‘ ابتلا کے دور میں ساتھ دینے والے سب کارکن دیوار سے لگا دیے گئے اور منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اس کی عمدہ مثال ہےں‘ اب ان کی ٹیم میں کون شامل ہے اسد عمر تو براہ راست تحریک انصاف میں آئے تھے‘ یہ ان کی پہلی سیاسی جماعت ہے‘ لیکن اب منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے والی بات سچ ثابت ہوئی ہے۔ وزیر داخلہ اعجاز شاہ‘ جنرل پرویز مشرف کے خاص وقت کے خاص ساتھی‘ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان‘ گھر میں تھیں انہیں بلا کر قاف لیگ کے ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں لایا گیا‘ پیپلزپارٹی ان کی گلی منزل ٹھیری‘ پھر تحریک انصاف میں شامل ہوئیں‘ ایم ایم اے کی کامیابی دیکھ کر اعظم سواتی نے امریکا سے اڑان بھری اور چمک ان کے بہت کام آئی‘ جے یو آئی کے ٹکٹ پر سینیٹ میں پہنچے‘ عمر ایوب خان قاف لیگ سے نواز لیگ اور پھر نیا پاکستان بنانے وہاں سے تحریک انصاف کے کیمپ میں آئے‘ نو وزراءکی تبدیلی پر ملک میں رائے عامہ کے تجزیے اور تبصروں کا ایک طوفان امڈ آیا، خود عمران خان کہا کرتے تھے کہ سونامی آرہا ہے‘ انہیں تو مولانا طارق جمیل نے منع کیا کہ یہ لفظ استعمال نہ کریں‘ خود عمران خان کے نکاح خوان مفتی سعید بھی ان دنوں ناراض ہیں‘ وجہ کیا ہے؟ یہی کہ کسی بھی صائب مشورہ پر توجہ نہ دینا‘ اب کہا جارہا ہے کہ وزیر خزانہ کا قصور ہے کہ پالیسی نہیں دے سکے۔ میچ کے لیے پالیسی تو کپتان دیتا ہے‘ کیا وزیر اعظم عمران خان یہ نکتہ نہیں سمجھتے؟ انہوں تو اپنے عمل سے نواز شریف کی بات سچ ثابت کردکھائی کہ کھلاڑی اناڑی ہے۔
تحریک انصاف کو یہ بات اب سمجھ لینی چاہیے کہ حکومت کے فیصلوں اور کنٹینر پر چڑھ کرتقریر کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے اسد عمر کا کیس کیا ہے ان کے دور میں قیمتوں میں اضافہ‘ روپے کی قدر میں کمی ہوئی معاشی ترقی سست روی کا شکار رہی وہ فیصلے نہیں کر سکے جس کے سبب غیر یقینی اور اضطراب بڑھا اور قوم کو پانچ سو ارب کا نقصان ہوا‘ اگر ایسا ہی ہے اور تحریک انصاف کی قیادت بھی یہی سمجھتی ہے تو پھر کیا یہ نیب کیس نہیں؟ بابر اعوان کے خلاف کیس کیا ہے‘ یہی کہ نندی پور پروجیکٹ کے لیے بروقت فیصلہ نہیں کیا اور پروجیکٹ کی قیمت بڑھ گئی‘ اب کہا جارہا ہے کہ بر وقت فیصلے نہ کرنے سے پانچ سو ارب کا نقصان ہوا‘ یہ بھی کہا کہ ان کی حکمت عملی کا تحریک انصاف کے وژن سے کوئی تعلق نہیں تھا‘ متحدہ کو نفیس کہنا‘ تحریک انصاف کا وژن کب تھا؟ قصور اسد عمر کا نہیں‘ انہیں وزیر خزانہ بنانے والے کا ہے‘ اور اسی طرح قصور عمران خان کا بھی نہیں‘ انہیں لانے والوں کا ہے۔ اسد عمر کو اس لیے ہٹایا گیا کہ وہ اہل نہیں تھے یہ حکومتی اعتراف ہے یہ اعتراف ایسے وقت میں کیا گیا کہ بجٹ کی تیاری ہورہی ہے‘ جو کچھ بھی وہ کرکے گئے ہیں اسے مٹانا ہوگا‘ ان کے نکات بجٹ میں شامل کیے تو انہیں نا اہل قرار دینا غلط ہوگا۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے کئی برس قبل ہی اسد عمر کا انتخاب کرلیا تھا آٹھ سال تک عمران خان، اسد عمر کو پاکستان کے اقتصادی بحران کا نجات دہندہ بنا کر پیش کرتے رہے اور آٹھ ماہ میں ہی وہ اپنے ہی جواب سے مطمئن نہیں ہیں۔ عمران خان ہمیشہ ہی یہ کہتے رہے ہیں کہ ٹیم اگر نتائج نہ دے تو ذمے دار کپتان ہوتا ہے، اسد عمر کی بے دخلی عمران خان کے لیے بہت بڑا دھچکہ ہے۔ اسد عمر کی قابلیت پر کبھی اتنے سوالات نہ اٹھتے، جیسا کہ ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد اٹھ رہے ہیں معاشی ناکامی اپنی جگہ‘ پی ٹی آئی کا اندرونی خلفشار اسد عمر کو عہدے سے ہٹائے جانے کی اہم وجہ ہے عمران خان ہمیشہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ان کے پاس ایسی ٹیم ہے جو اپنی دوراندیشی اور منصوبہ بندی سے معجزات کرسکتی ہے۔ اسد عمر کے عہدے سے ہٹائے جانے سے اس بات کا اعتراف بھی کرلیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس کوئی ویژن نہیں ہے اکیلے اسد عمر نہیں تحریک انصاف کی ساری ٹیم رن بنائے بغیر آﺅٹ ہوگئی۔