بے حسی کی حدیں پارنہ کریں

202

ایک نہیں پورے 14 جیتے جاگتے انسانوں کو بسوں سے اتارا گیا، ان کو شناخت کیا گیا، لائن سے کھڑا کیا گیا اور سفاکی کے ساتھ گولیاں ماردی گئیں، ایسا لگا جیسے وہ انسان نہیں بلکہ مکھی مچھر تھے جن کو ہلاک کردیا گیا۔ خبروں کے مطابق بلوچستان کے ضلع گوادر میں مکران کوسٹل ہائی وے پر نامعلوم مسلح افراد نے 14 مسافروں کو شناخت کرکے بسوں سے اتارنے کے بعد قتل کردیا۔ مقتولین میں اکثریت سیکورٹی اہلکار وں کی تھی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی لیکن اس سے کہیں بڑھ کر سفاکیت یہ ہوئی کہ پاکستان کا میڈیا سارا دن حکومتی سطح پر شہید اور زخمی ہوجانے والے ا±ن وزرا کا سوگ مناتا رہا جن کو یا تو وزارتوں سے فارغ کردیا گیا تھا یا ان کے محکمے تبدیل کردیے گئے تھے۔ جن انسانوں کو بے دردی کے ساتھ بسوں سے اتار کر قتل کیا گیا ان کا ذکر دور دور بھی سنائی نہیں دیا۔
حکومت میں اس قسم کی تبدیلیاں اور وزارتوں کی الٹ پھر ہوا ہی کرتی ہے۔ پاکستان میں تو وزارت عظمیٰ بھی اتنی غیر اہم ہے جس کو بیک جنبش قلم یا بزورِ شمشیر بدلا جاسکتا ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے یہی تماشا دیکھنے میں آرہا ہے۔ پوری پوری حکومتوں اور ان کی کابیناو¿ں کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا جاتا ہے اور اس سے نہ تو آئین پاکستان پر کوئی حرف آتا ہے اور نہ ہی کسی قانون کی خلاف ورزی سرزد ہوتی ہے۔ دور کیوں جائیے، مشرف دور میں ان کا اپنا ہی وزیر اعظم، جمالی، ہٹادیا گیا اور یوں پاکستان کی تاریخ میں چودھری شجاعت کا نام بھی وزارت عظمیٰ کی فہرست میں شامل ہوگیا۔ پھر ان پر بھی مکمل بھروسا نہ ہونے کی وجہ سے انہیں عبوری دور تک ہی محدود رکھا گیا۔ ایک درآمد شدہ فرد کو الیکشن لڑوایا گیا اور یوں وزارت عظمیٰ شوکت عزیز کے نصیب میں لکھ دی گئی۔ یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی جانب سے یہ شور بلند ہوا کہ پرویز مشرف کی حکومت ناکام ہوگئی، ان کے اپنے منتخب وزرئے اعظم نالائق نکلے یا یہ کہا گیا کہ پرویز مشرف ایک ناکام اور نااہل سالار تھے؟۔ جب اس وقت اتنی اہم ذمے داریوں پر متمکن عہدیداروں کو یک بعد دیگرے تبدیل کیے جانے پر بھی کوئی غلغلہ بلند نہیں ہوا تو عمران خان کی حکومت میں اگر چند وزرا کو ان کے عہدوں سے باہر کردیا گیا یا ان کے محکموں میں ردوبدل عمل میں لایا گیا تو ایسا کیوں لگا جیسے پورے پاکستان میں زلزلہ آگیا ہے اور اس کے جھٹکے اتنے شدید ہیں کہ وہ 14 بے قصور افراد جن کو باقاعدہ شناخت کرنے کے بعد بسوں سے اتارا گیا اور پھر بیدردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتاردیا گیا، ان کا ذکر کرنا تک بھول گئے۔ اس سے جو بات ظاہر ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک بے گناہوں کا بہتا اور ابلتا خون کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
بلوچستان میں بسوں سے اتار کر اور شناخت کرنے کے بعد لوگوں کو ہلاک کردینا کوئی نئی بات نہیں۔ جن سڑکوں پر لوگوں کو بسوں سے اتار کر اسی طرح ماردیا جانا اور ان میں سے اکثر کو عزیز و اقارب اور بیوی بچوں کے سامنے قتل کردینا معمول ہو وہاں مسافروں کے تحفظ کا کوئی انتظام مستقل بنیادوں پر نہ کیا جانا خود ایک نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی سفاکانہ کارروائی ہوجائے تو رد عمل کے طور پر کوئی نہ کوئی واقعہ ان ہی دنوں میں ضرور ظہور پزیر ہونے کے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں اس لیے سیکورٹی ادارے الرٹ ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سارے ایسے خدشات ٹل جاتے ہیں جو کسی اور سانحے کا سبب بن سکیں۔ بلوچستان میں دودن قبل ہی دہشت گردی کا ایک بھیانک واقعہ ہوچکا تھا اور اس بات کا خدشہ موجود تھا کہ اس کا رد عمل کہیں نہ کہیں ضرور سامنے آئے گا۔ جب ایسا ہوجانا انہونی نہیں تھا تو آخر غفلت سے کام کیوں لیاگیا؟۔
باخبر ذرائع کے مطابق حملہ آوروں نے بھیس بدلنے کے لیے سیکورٹی فورسز کی وردیاں پہنی ہوئی تھیں اور ان کی تعداد 40سے زاید تھی۔ عینی گواہوں نے بتایا کہ مکران کوسٹل ہائی وے کے جس مقام پر واقعہ پیش آیا ہے وہ پہاڑی علاقہ ہے اور حملہ آور واردات کے بعد پیدل پہاڑوں کی طرف فرار ہوگئے۔ اتنی بھاری تعداد میں قاتلوں کا ایک جگہ اکھٹا ہونا۔ پھر بسوں کو روکنا، پھر نہایت اطمینان اور سکون کے ساتھ افراد کو شناخت کرکے بسوں سے اتارنا اور پھر ان کو قتل کرکے فرار ہوجانا کسی فلم کا سا منظر لگتا ہے۔ یہ تمام عرصہ کوئی چند سیکنڈوں کا تو رہا نہیں ہوگا۔ اس سارے عرصے میں کسی کا بھی وہاں سے گزر ہی نہیں ہونا ناقابل فہم اور سیکورٹی کی مکمل ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں۔ آج اخبارات میں بھی وزاتوں کے ردوبدل کو تو سب سے بڑی شرخی میں دیکھا گیا لیکن بے گناہ انسانوں کے قتل کی خبر کو دوسرے یا تیسرے درجے کی خبر کے طور پر دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ جس قوم میں بے حسی اس مقام پر پہنچ جائے اس کے حق میں دعائے خیر ہی کی جاسکتی ہے۔
جب ہم دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بات دنیا کی نظر میں اس لیے مو¿ثر نہیں ہوپاتی کہ خود ہمارے ملک میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان مارے جانے کی تعداد بھارت میں یا دنیا میں ستائے جانے اور مارے جانے مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ جب تک ہم اپنے ملک میں سفاکانہ وارداتوں پر قابو نہیں پائیں گے اور وزارتوں کے ماتم کو انسانوں کی ہلاکتوں پر مقدم سمجھتے رہیں گے، دنیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم پر ہماری چیخ و پکار کا کوئی بھی اثر ہرگز قبول نہیں کرے گی۔ اگر دنیا میں مسلمانوں پر ظلم و ستم بند کرانا ہے تو پاکستان کو امن و امان کا گہوارہ بنانے کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں۔