بھارتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں پو لنگ مکمل ہوچکی ہے۔ 7مراحل میں پولنگ کے بعد 23مئی کو انتخابی نتائج سامنے آئیں گے۔ چار مختلف سروے نتائج کے مطابق نریندر مودی کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔ نریندر مودی پہلی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے تو ان کی کامیابی کے پیچھے اسرائیلی ایجنسی موساد کا کردار موضوع گفتگو بنا تھا۔ گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے مودی 2006ءمیں تل ابیب کا دورہ کرچکے تھے۔ 2017ءمیں بھی انہوں نے بطور وزیراعظم اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ اسرائیل سے ان کی اس قربت کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ تاہم اسرائیل سے مودی کے تعلقات کا سبب کچھ اور بھی ہے۔ وہ دشمنوں سے نمٹنے کے لیے جو پالیسیاں اور حکمت عملی اختیار کرتے ہیں ان میں اسرائیل کے اثرات دور سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ گزشتہ ماہ بالاکوٹ پر حملے کے لیے دہشت گرد کیمپوں کی موجودگی کا مودی کا دعوی بالکل ویسا ہی تھا جیسا اسرائیل غزہ پر حملے کے لیے گھڑتا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے حالیہ الیکشن میں مودی نے جو لائن اختیار کی ہے وہ بھی فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے جیسی ہے۔ انتخابات کے آغاز سے تین دن پہلے مودی نے بی جے پی کے انتخابی منشور کا اعلان کیا۔ یہ منشور 45صفحات اور 75نکات پر مشتمل ہے۔ مودی نے اس منشور میں جو اہم باتیں بیان کیں اور دوسری مرتبہ منتخب ہونے کی صورت میں جن پر لازمی عمل کرنے کا وعدہ کیا وہ درج ذیل ہیں:
٭ ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر۔
٭ قوم پرستی کا فروغ۔ (مودی جب قوم کہتے ہیں تو ان کی فکر میں صرف ایک ہی قوم ہوتی ہے۔ ہندو)
٭ بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر اور کشمیریوں کے بارے میں خصو صی آرٹیکل 370 اور 35اے کا خاتمہ۔
مقبوضہ جموں اور کشمیر کے بارے میں منشور کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نریندر مودی نے اس موقع پر کہا ”ہم اسی موقف کا اعادہ کررہے ہیں جو جن سنگھ کے وقت سے رہا ہے کہ آرٹیکل 370 کو ختم کیا جائے۔ ہم دستور ہند کے آرٹیکل 35اے کو بھی ختم کرنے کے پابند ہیں۔ کیوںکہ یہ دفعہ جموں وکشمیر کے غیر مستقل مکینوں اور خواتین کے خلاف امتیازی نوعیت کی ہے“۔ 2014 کے انتخابات میں مودی ان دفعات کے بارے میں خاموش رہے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور کشمیر کے باب میں ان کی سوچ پُر تشدد ہوتی جارہی ہے۔ ان شقوں کے خاتمے سے وہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنا چاہتے ہیں۔ مودی کا وعدہ ہے کہ دوبارہ برسر اقتدار آتے ہی وہ ان شقوں کا خاتمہ کردیں گے اور اس کے ساتھ ہی مقبوضہ جموں وکشمیر کی وہ خصوصی آئینی حیثیت ختم ہوجائے گی جس کے تحت بھارت سے کوئی شخص آکر کشمیر میں جائداد نہیں خرید سکتا۔ مقبوضہ کشمیر میں تقریباً ایک کروڑ کے لگ بھگ مسلمان ہیں۔ تیس چالیس لاکھ ہندو اور سکھ ہیں۔ ان شقوں کے خاتمے کے ساتھ ہی بھارت سے ہندوﺅں کے ریلے کے ریلے کشمیر کا رخ کرنا شروع کردیں گے۔ تین چار ملین ہندوﺅں نے کشمیر میں رہائش اختیار کی اس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔
اسرائیل کی طرح نریندر مودی اقلیتوں کو خوش رکھنے کی پالیسی کے قائل نہیں۔ نریندر مودی کی پاکستان کے بارے میں خارجہ پالیسی ہو یا کشمیر اور دیگر ایشوز پر داخلی پالیسیاں وہ اسرائیلی پالیسیوں پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ وہ اسرائیل کی فلسطینی پالیسی کشمیر میں نافذ کررہے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کی طرح الیکشن میں کامیابی کے لیے مودی بھی معاشی مسائل، مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے بجائے بیرونی خطرے اور پاکستان دشمن ماحول بناکر میدان میں اترتے ہیں۔ وہ پاکستان سے جنگی ماحول بنا کر اپنے ووٹرز کو عدم تحفظ کا احساس دلاکر الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر صدر ٹرمپ ہوں، مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو یا پھر جنوبی ایشیا میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی تینوں مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں۔ تینوں مسلمانوں کے حوالے سے خون آشام فطرت اور منصوبے رکھتے ہیں۔
نریندر مودی نے مسلمانوں، پاکستان اور اہل کشمیر کے بارے میں اپنی فکر، عمل اور سوچ کبھی پوشیدہ نہیں رکھی۔ وہ ببانگ دھل اپنی نفرت کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے الیکشن جیتنے کے لیے ہندوستان کے طول وعرض میں پاکستان سے نفرت کا ماحول اور جنگی جنون پیدا کیا۔ لاہور، سیالکوٹ اور بالاکوٹ میں تین اطراف سے طیارے داخل کیے، فضائی حملہ کرایا۔ کنٹرول لائن پر روزانہ کی بنیاد پر مسلسل فائرنگ اور گولہ باری کو معمول بنادیا جس سے آئے روز افواج پاکستان کے جوان اور پاکستان کے شہری شہید اور زخمی ہوتے رہتے ہیں۔ کیا اس کے بعد کوئی ذی فہم اور صائب الرائے نریندر مودی سے مسلمانوںکے باب میں کسی خیر کی توقع رکھ سکتا ہے؟ کیا کوئی شخص اس بات کا تصور بھی کرسکتا ہے کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد نریندر مودی اس بیانیے کو چھوڑ دیں گے جس پر عمل کرتے ہوئے وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتے؟ نریندر مودی اس محاذ سے پسپا ہوجائے گا، یوٹرن لے گا جو اس نے سیاست میں سرگرم ہونے کے بعد پہلے دن سے تاحال پا کستان کے خلاف کھول رکھا ہے؟۔
مودی دائیں بازو کی اس متعصب ہندو سوچ کا نمائندہ ہے جو ہندوتوا کا پرچار کرتی ہے۔ تاریخ کو توڑ مروڑ کر مسلمانوں کے مظالم بیان کرتی ہے۔ ہندو قوم پرستی کو آگے بڑھانے کے لیے صہیونی طریقوں سے مدد لیتی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم سے مستعار لیے ہوئے حربوں سے انہوں نے مسلمانوں اور کشمیریوں کا جینا دوبھر رکھا ہے۔ وہ بھارتی آئین میں درج کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو کوئی وقعت دینے کے لیے تیار نہیں۔ دوبارہ کامیابی کی صورت میں ان کا پختہ عزم اور وعدہ ہے کہ وہ کشمیر کی اس حیثیت کو ختم کردیں گے۔ بھارت سے الحاق کے حوالے سے کشمیر کے مستقبل کا بھی مستقل بندو بست کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے کے درپے ہیں۔ وہ کشمیر کو ہندوستان میں ضم کرنا چاہتے ہیں۔ کیا الیکشن میں دوبارہ کامیابی کی صورت میں وہ اپنی اس فکر اور سوچ سے منحرف ہوجائیں گے؟ کیا ان پر ایسا کوئی دباﺅ ہوگا کہ وہ کشمیر کے بارے میں اپنے مستقبل کے عزائم سے کنارہ کش ہوجائیں؟
کشمیر میں سات لاکھ سے زاید ہندوستانی افواج موجود ہیں۔ ان افواج کا مقصد محض مسلمان اکثریت کی آزادی کی جدوجہد کا خاتمہ کرنا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مقصد کشمیر میں ایسی تبدیلیاں لانا ہیں جن کے بعد جموں و کشمیر ہندوستان میں ضم ہوسکے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد نریندر مودی ہندوستانی فوج کے اس ٹاسک کا خاتمہ کردیں اور اہل کشمیر کی امنگوں کے مطابق کشمیر کے مسئلے کو حل کردیں؟ مودی کا دوبارہ اقتدار میں آنا، اہل کشمیر کے لیے اس سے بدترین کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ مودی سے کشمیر کے حوالے سے جب بھی بات کی جاتی ہے وہ ایک ہی بات کی تکرار کرتے ہیں ”ہاں ہم کشمیر پر بات کریں گے لیکن اس کشمیر پر جو پاکستان کے قبضے میں ہے“۔ کشمیر کے معاملے میں مودی اور متعصب ہندو اکثریت نے بات کرنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ہے ایسے میں کوئی پاگل ہی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ ”مودی جیتے تو کشمیر پر کوئی تصفیہ ہوسکتا ہے“۔ اس پاگل کا نام عمران خان ہے۔ وزیراعظم عمران خان۔