نشوا چلی گئی، ”بھٹو تو زندہ ہے“

338

قوم خصوصاً اہل کراچی کو مبارک ہو کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے تشکیل کردہ ”ہیلتھ کیئر کمیشن“ نے نجی اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور عملے کی غفلت سے جاں بحق ہونے والوں کی ”قیمت“ 5 لاکھ روپے مقرر کردی ہے۔ مبارکباد اس لیے کہ گزشتہ تقریباً بارہ سال سے منتخب ہونے والی اس حکومت کی نظر میں ایک انسان کی قیمت 5 لاکھ روپے سے زاید کیا ہوسکتی ہے۔ ان کی نظروں میں تو عام انسان کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے۔ ان کے لیے تو صرف یہی کافی ہے کہ ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“۔ پانچ لاکھ روپے کی یہ رقم اسپتال سے جرمانے کی شکل میں وصول کی جائے گی۔ ان ”شو رومز“ نما اسپتالوں میں داخل ہونے والے ایک مریض سے کم ازکم 5 ہزار اور زیادہ سے زیادہ بارہ لاکھ روپے تک وصول کیے جانا الزام نہیں حقیقت ہے۔ جتنا بڑا اسپتال اتنی زیادہ فیس۔ مریض علاج کے دوران مر جائے تو بھی کوئی بات نہیں کیوںکہ اب تو مریض کے مرنے کے باوجود اسے وینٹی لیٹر پر رکھنے کا بہانہ بناکر مریض کے علاج کے لیے نہیں بلکہ مردے کو ”زندہ ہے“ بولنے کے چارجز لیے جاتے ہیں۔ دنیا میں شاید ہی ایسی بے حسی کہیں ہوتی ہوگی؟
سندھ حکومت آئین میں 18 ویں ترمیم برقرار رکھنے پر بضد اسی لیے ہے کہ اس ترمیم کی وجہ سے اسے اسپتالوں سے لے کر قبرستانوں تک کا کنٹرول حاصل ہوچکا ہے۔ تب ہی وہ باآسانی ”روٹی کپڑا اور مکان“ کو بھول کر تعلیم، صحت اور روزگار کا روز ہی جنازہ نکالا کرتی ہے۔ معصوم نشوا کا جنازہ بھی اسی بے حسی اور ضد کی وجہ سے نکلا۔ جب نیب زدہ اور کرپشن کے کینسر میں مبتلا حکمران ہوںگے تو ایسے ہی حالات پیدا ہوں گے، کیوںکہ ”زندہ ہے بھٹو، زندہ ہے“۔
نشوا کے واقعہ نے شہر کے ایسے تمام ہی ”دارالصحت“ کو ”دارالموت“ کی حیثیت سے آشکار کر دیا ہے۔ بیش تر نجی اسپتالوں میں علاج کے سوا سب ہی کچھ تو ہوتا ہے۔ چند ماہ پہلے ہی کی تو بات ہے، جب اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ضیاءالدین اسپتال کا اچانک دورہ کیا تو وہاں زیر حراست بااثر ملزم شرجیل میمن کے کمرے سے شراب تک برآمد ہوئی، یہ اور بات ہے کہ بعد میں شراب کو شہد قرار دیا گیا۔ شاید ایسے اسپتالوں میں شراب شہد اور معمولی بیمار مردہ بن جاتا ہے۔ یہ بات حقیقت کے قریب ہی تو ہے کہ سندھ کے حکمران معصوم انسانوں کی صحت سے لاتعلق اور ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“ کے نعروں میں مست ہیں۔ کراچی کے نجی اسپتال دارالصحت میں 7 اپریل کو نوماہ کی نشوا کی طبیعت غلط انجکشن لگنے سے بگڑی، اسپتال بروقت درست علاج کرتا تو بچی بچ سکتی تھی، یہ بات میں نہیں کہہ رہا بلکہ تحقیقاتی کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ میں بتائی گئی ہے جو وزیر اعلیٰ مرادعلی شاہ کو پیش کی گئی۔ سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کی اس رپورٹ کے مطابق مڈوائف صوبیہ اور نرسنگ اسسٹنٹ معیز نے غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ نجی اسپتال فوری طور پر غیر تربیت یافتہ عملے کو فارغ کرے۔ سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن نے اسپتال پر پانچ لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کرنے کی سفارش کردی۔
سوال یہ ہے کہ سندھ ہیلتھ کمیشن نے صرف ایک ہی اسپتال کو نشوا کی موت کا مکمل ذمے دار کیوں اور کس بنیاد پر ٹھیرایا؟ نشوا تو یکے بعد دیگرے دو ”دارالصحت“ میں علاج کے لیے پہنچائی گئی تھی۔ اس کے والدین کا کہنا ہے کہ بچی کی حالت دارالصحت میں غلط انجکشن لگنے سے بگڑی تھی۔ نشوا کا دماغ مکمل مفلوج ہوچکا تھا۔ اس اسپتال حکام کے مطابق 9ماہ کی نشوا دارالصحت اسپتال میں داخل ہوئی تھی۔ نشوا کو گیسٹرو کی شکایت تھی۔ عملے کی جانب سے پوٹاشیم کلورائیڈ کا انجکشن دیا گیا جس کے بعد بچی کے دل کی دھڑکن تیزہوگئی۔ نشوا کو فوری طور پر وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا۔ بعد ازاں اسے اسٹیڈیم روڈ پر موجود بڑے اور پرانے ”لیاقت“ اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔ جہاں وہ 15 روز زیر علاج رہی اور صحت مند ہونے کا انتظار کرتی رہی۔ 15 دن اس ”دارالصحت“ میں ڈاکٹروں نے ایسا علاج کیا کہ وہ صحت مند ہونے کے بجائے جان سے چلی گئی۔ مگر سندھ ہیلتھ کمیشن نے اپنی تحقیقات میں اس اسپتال کے علاج کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں کیا۔ کیوں؟ اس کی وجہ کمیشن ہی بیان کرسکتا ہے یا ”کمیشن“ ہی جان سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ معصوم ”زندہ دل“ کے والد قیصر علی نے اس کے علاج کے لیے لیاقت اسپتال میں بھی ہزاروں روپے خرچ کر ڈالے ہوں گے مگر بدلے میں انہیں اپنی بیٹی ہنستے کھیلتے ہوئے ملنے کے بجائے اس کا مردہ جسم ملا۔ اللہ قیصر ان کے اہل خانہ کو یہ صدمہ عظیم برداشت کرنے کی ہمت عطا کرے اور انہیں صبر جمیل دے، آمین
نشوا کے معنی ”زندہ دلی یا زندہ دل“ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ زندہ دل ہی نہیں بلکہ زندہ ہے کیوںکہ وہ شہید ہے اس لیے کہ بیماری کی موت بھی شہادت کے ایک درجے پر پہنچتی ہے وہ تو ڈاکٹروں کی غفلت سے بھی اس رتبے پر پہنچی ہے۔ اللہ اس کے درجات مزید بلند کرے آمین۔
اہم امر یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کی تشکیل کردہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ نشوا کی طبیعت غلط انجکشن لگنے سے بگڑی، بروقت علاج کیا جاتا تو بچی بچ سکتی تھی۔ اگر تحقیقاتی ٹیم کا یہ کہنا درست مان لیا جائے تو یہ بحث کی جاسکتی ہے کہ وہ فوری طور پر تو بچ چکی تھی اس کی حالت بہتر ہورہی تھی مگر دوسرے اسپتال میں ایسا کیا ہوا کہ وہ 15 دن وہاں زیر علاج رہی مگر صحت مند نہیں ہوسکی۔ والدین تو اسے اسپتالوں میں صحت مند ہونے کے لیے لے گئے تھے اور ساتھ ہی منہ مانگا روپیہ بھی خرچ کیا ہوگا۔ کیا ”صحت کا خیال رکھنے والے کمیشن“ نے اپنی تحقیقات کا دائرہ اس طرف بھی بڑھایا تھا کہ لیاقت اسپتال میں بچی کے علاج کے لیے کیا کچھ ڈاکٹرز کے کہنے پر کیا گیا؟ کیا وہاں طبی اصولوں کے تحت اس کا علاج کرنے کی کوشش کی گئی تھی؟ نو ماہ کی نشوا کی حالت بگڑ گئی تو اسے ایک دوسرے نجی اسپتال میں لے جایا گیا تھا جہاں وہ 15 دن تک موت و زندگی کی کشمکش میں رہنے کے بعد وہ جاں بحق ہوگئی۔ مجھے یہ بات لکھنے میں کوئی جھجک نہیں کہ نشوا کو علاج کے لیے ایک نہیں بلکہ یکے بعد دیگر دو ”دارالصحت“ پہنچایا گیا مگر ایک میں اس کی طبیعت پہلے سے زیادہ خراب ہوئی جبکہ دوسرے اسپتال میں وہ جان سے چلی گئی۔
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں صحت کی فراہمی کے دعویدار تو سارے ہی نجی اسپتال ”دارالصحت“ بنے ہوئے ہیں۔ مگر دراصل ان میں سے بیش تر ان کے مالکان کے لیے ”دارالعشرت“ کا کام کررہے ہیں۔ جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ بیش تر نجی اسپتالوں میں علاج کے سوا ”سب کچھ“ ہوتا ہے۔ ان اسپتالوں کے دورے سے ہر کسی کے ذہن میں یہی سوال آتا ہے کہ یہ اسپتال ہیں یا شوروم؟۔ نشوا کے والدین کا قصور ہے کہ وہ این جی او کے تحت مفت چلائے جانے والے ”انڈس اسپتال کورنگی یا اسی طرح کے کسی دوسرے ادارے الخدمت وغیرہ کے اسپتال اپنی بچی کو لے کر نہیں گئے بلکہ صحت دینے کے دعویدار ”دارالموت“ لیکر گئے۔ نو ماہ کی پھول جیسی نشوا کھلنے سے قبل ہی مرجھا گئی۔ حکمراں سوشل میڈیا کی نشاندہی کے باوجود نشوا کے علاج کے لیے صرف بیانات دیتے رہے کیوں کہ انہیں معصوموں کی زندگیوں سے کوئی غرض نہیں ان کے لیے تو صرف ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“۔ کا نعرہ کافی ہے۔ نشوا کے انتقال کے بعد اس کے والد قیصر نے روتے ہوئے نہیں بلکہ گڑ گڑاتے ہوئے ہاتھ جوڑ سب والدین سے کہا کہ خدا کے لیے اپنے بچوں کو علاج کے لیے ”دارالصحت“ نہ لے کر جائیں۔ ایک متاثرہ باپ اس سے زیادہ اور کیا مشورہ دے سکتا ہے۔ مگر شرم کی بات تو حکومت کے لیے ہے جس کے پاس ”صحت“ کے پورے نظام کی بہتری کے لیے نہ وقت ہے اور نہ ہی فنڈز۔ فنڈز تو کرپشن کی نظر ہوجاتے ہیں اور کرپشن وہی لوگ کرتے ہیں جو اسپتالوں کو دارالعشرت بننے کا موقع دیا کرتے ہیں۔ نشوا کے ساتھ دارالصحت میں پیش آنے والا واقعہ واحد نہیں بلکہ اس سے قبل بھی ایسے ہی واقعات دیگر نجی اسپتالوں میں ہوچکے ہیں۔ سندھ کے حکمراناوں نے سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن تو بنادیا مگر کمیشن کو ”کمیشن“ تک محدود کردیا۔ نشوا واقعہ کے بعد اس کے ذمے دار اسپتالوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ حکمرانوں سے بھی باز پرس کرنا ضروری ہے، حکمرانوں سے طاقتور اور بااختیار عوام ہی پوچھ گچھ کرسکتے ہیں مگر یہاں تو جمہوریت کے نام پر صوبائی حکومت چلانے والے بلاول زرداری اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈال کر وفاقی حکومت سے باز پرس کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر قوم نشوا کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر اپنا جمہوری کردار ادا نہ کرسکی تو ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔