جنگ کے حوالے سے بعض باتیں عمو ماً دہرائی جاتی ہیں۔ گزشتہ دنوں پاک بھارت جنگ کا ماحول بنا تب بھی امن مہم کے حوالے سے ان باتوں کی تکرار کی گئی:
1: جنگ کوئی آپشن نہیں ہے کیوںکہ جنگوں سے بہت جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔ 2: جنگوں سے زبردست معاشی نقصان ہوتا ہے۔ جنگیں بہت مہنگی ہوتی ہیں۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے۔ 3: جنگوں کے نتیجے میں ترقی کا عمل رک جاتا ہے۔ 4: جنگیں شروع کرنا آسان لیکن انہیں ختم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ 5: پاکستان اور بھارت کسی صورت جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے کیوںکہ اس کے نتیجے میں ایٹمی جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ 6: جنگ سے ہر ممکن صورت بچنا اور امن کو بہر صورت قائم رکھنا ہے۔
پہلے ان نکات پر بات کر لیتے ہیں کہ جنگ سے بہت جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے یا یہ کہ جنگوں سے زبردست معاشی نقصان ہوتا ہے۔ جنگیں بہت مہنگی ہوتی ہیں۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے یا یہ کہ جنگ سے ہر ممکن صورت بچنا چاہیے اور امن کو بہر صورت قائم رکھنا چاہیے۔ یقینا جب جنگیں ہوتی ہیں تو شدید مالی اور جانی نقصان ہوتا ہے لیکن بعض مقاصد اس قدر عظیم اور ضروری ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے جانی اور مالی نقصان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ جانی اور مالی نقصان کوئی معنی نہیں رکھتا۔
1: امریکا کی جنگ آزادی: 1775ءسے 1783ءکے درمیان امریکیوں اور برطانیہ کے درمیان یہ جنگ واقع ہوئی جس کے نتیجے میں امریکا نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ اس جنگ کے دوران فریقین کے 55ہزار افراد مارے گئے۔ 2: پہلی جنگ عظیم: 1914 سے 1918ءتک لڑی گئی۔ چار کروڑ لوگ مارے گئے۔ 300ارب ڈالر سے زائد خرچ ہوئے۔ 3: دوسری جنگ عظیم: 1939 سے 1945ءتک جاری رہی۔ سات کروڑ لوگ مارے گئے۔ 850ارب ڈالر سے زائد خرچ ہوئے۔ 4: ویت نام کی جنگ: 1955 سے 1975ءتک لڑی گئی۔ اس جنگ میں 30لاکھ ویتنامی اور 50ہزار امریکی مارے گئے۔ 168ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ 5: پہلی افغان جنگ: سوویت یونین کے خلاف 1979ءسے 1989 تک لڑی گئی۔ 20لاکھ افغان مسلمان شہید جب کہ 35ہزار روسی مارے گئے۔ 6: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے خلاف 1989ءسے کشمیری مسلمانوں کی جنگ جاری ہے جس میں اب تک ایک لاکھ کشمیری شہید اور لاکھوں زخمی ہوچکے ہیں۔ تین دہائیوں سے بھارت اپنی نصف فوج وہاں رکھنے پر مجبور ہے۔ 7: 70برس سے زائد ہونے کو آرہے ہیں فلسطین یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ ہزاروں مسلمان شہید ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود یہودیوں سے مسلسل جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 8: 2001 سے جاری دوسری افغان جنگ جس میں لاکھوں افغانی شہید ہوچکے ہیں۔ امریکا 1000 ارب ڈالر خرچ کرچکا ہے۔
ان جنگوں میں فریقین کو عظیم جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود دنیا میں کہیں یہ بات بطور اصول تسلیم نہیں کی گئی کہ کچھ بھی ہوجائے جنگ نہیں کرنی۔ حق کے لیے جنگ ناگزیر خون ریزی ہے خواہ اس سے کتنا ہی جانی اور مالی نقصان ہوتا ہو۔ یہودیوں کے فلسطین پر قبضے، 70برس سے بھارت کے ہاتھوں اہل کشمیر کی آزادی صلب کرنے، ان پر دن رات ظلم کرنے یا گزشتہ 18برس سے امریکا کے افغانستان پر قبضے، ان مظالم کے خلاف اس لیے جنگ نہ کی جائے کہ بہت جانی اور مالی نقصان ہوگا یا یہ کہ کچھ بھی ہوجائے جنگ نہیں کرنی یہ محض خیالی اور نمائشی اخلاق ہے۔ ایسی اخلاقی آوازیں جدید مغربی دنیا سے بڑے زور وشور سے بلند کی جاتی ہیں لیکن عملی دنیا میں وہ اپنے آپ کو اس سے روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ آج بھی انہوں نے دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف جنگیں چھیڑ رکھیں ہیں اس تضاد کے ساتھ کہ ایک طرف امن کی باتیں لیکن عملی طور پر جنگ کی گھاتیں۔ مسلمانوں کے لیے ناگزیر بنادیا گیا ہے کہ وہ جنگ کی صورت اس کا مقابلہ کریں۔
سوال یہ ہے کہ جنگ اگر اتنی ہی بری چیز ہے تو جن ممالک اور اقوام کی طرف سے جنگ کے خلاف نعرے بلند ہوتے ہیں، جنگ کو بری چیز قرار دیا جاتا ہے، انہوں نے فوجیں کیوں رکھی ہوئی ہیں؟ کیوں تمام تر خسارے کے باوجود اپنے بجٹ کا ایک غالب حصہ فوج کے لیے مختص کررکھا ہے؟ کیوں جنگی ہیروز کو یاد رکھا جاتا ہے؟ کیوں جنگی ہیروز کا بہ اہتمام دن منایا جاتا ہے؟ کیوں نوجوان نسل کے سامنے جنگی ہیروز کو بطور ماڈل پیش کیا جاتا ہے؟ دنیا میں جس طرح اچھے انسانوں کے ساتھ ساتھ برے انسان پائے جاتے ہیں اسی طرح اچھی اقوام کے ساتھ بری اقوام بھی پائی جاتی ہیں جو دنیا بھر کے انسانوں کی مالک اور مختار بن کر رہنا چاہتی ہیں، جو کمزوروں کو جینے کا حق نہیں دیتیں، ان کے حقوق غصب کرتی ہیں، عدل وانصاف کو مٹانے کے درپے ہوتی ہیں، ظلم ان کا طریقہ اور جفا عادت ہوتی ہے، جو شرافت اور نیکی کو کمزوری سمجھتی ہیں، جو شریفوں کو دباتی اور کمینوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ ان ممالک اور اقوام کے خلاف اگر جنگ نہ کی جائے تو دنیا بھر میں نیکی اور سچائی کا خاتمہ ہوجائے، انسانوں کے اخلاق برباد ہوجائیں، خوبیوں اور اچھائیوںکے چشمے سوکھ جائیں، حکمت، شجاعت، عفت اور عدالت صحرا نشین ہوجائیں۔ بدکاری اور بے حیائی دنیا کا چلن بن جائے، سنگ دلی اور بے انصافی لوگوں کی عادت اور جھگڑے اور فسادات دنیا کا دستور بن جائیں۔ خواہش اقتدار کے لیے زمین میں فساد پھیلانا چلن اور خوبی بن جائے۔ تمام علوم، حکمتوں، اداروں اور فلاح وبہبود کے منصوبوں کا اصل مقصد انسانوں کو غلام بنانا طے ہوجائے۔ کون سمجھدار اور باشعور اس کی اجازت دے گا؟ کون ذی فہم ایسا چاہے گا؟ جس طرح افراد کو قابو رکھنے کے لیے قید اور سزائے موت کے قوانین ناگزیر ہیں اسی طرح حرص وطمع سے مغلوب سرکش قوموں کو قابو رکھنے کے لیے جنگ بھی نا گزیر ہے۔ دنیا کا کوئی قانون جو عمل کے بدلے اور گناہ کی سزا کے اصول سے خالی ہو ایک دلفریب نعرہ تو ہوسکتا ہے کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔
اسلام ہرگز ایک مکمل دین نہ ہوتا اگر اس میں جہاد اور قتال کا حکم نہ ہوتا۔ قرآن اور حدیث میں مسلمانوں کو جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن صرف تین صورتوں میں۔ اول: اللہ کے دین کو پھیلانے کے لیے۔ دوم: اپنے دفاع کے لیے۔ سوم: مظلوموں کو ظالم سے بچانے اور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دینے کے لیے۔ جہاں تک جنگوں سے نقصان کا معاملہ ہے تو مسلمانوں کی تاریخ مثال ہے کہ جہاد کی وجہ سے کبھی ریاست اور اس کے عوام غریب نہیں ہوئے بلکہ امیر ہوئے ہیں۔ جنگوں کی وجہ سے ترقی کا عمل رکنے کی بات ہے تو یہ بھی درست نہیں ہے جنگ کی تیاری کی وجہ سے زبردست ترقی ہوتی ہے۔ ماضی میں اسلامی ریاست اور عصر حاضر میں امریکا، برطانیہ، جرمنی، جاپان اور روس اس کی مثالیں ہیں۔ جب تک مسلمان جہاد میں مصروف رہے دنیا کی ترقی یافتہ ترین قوم رہے۔ جب جہاد سے منہ موڑا ترقی کی دوڑ میں پیچھے اور بہت پیچھے رہ گئے۔ آج مغربی اقوام کے جنگی کارخانے رات دن اسلحہ بنانے میں مصروف ہیں لیکن ہمیں کہا جاتا ہے کہ زراعت اور صنعت وحرفت کے شعبے میں چھوٹی موٹی صنعتیں لگا لو وہ بھی اس لیے کہ مغربی اقوام کو اشیاءضرورت سستے داموں ملتی رہیں۔ پاکستان اگر آج ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی یافتہ ہے تو یہ بھارت سے جنگ کی تیاریوں کی وجہ سے ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کے مفروضے کی بات ہے تو عرض یہ ہے کہ دنیا میں ایٹمی اسلحہ آج تک صرف ایک بار استعمال ہوا ہے وہ بھی اس وقت جب یہ صرف ایک ملک امریکا کے پاس تھا اور جاپان کے پاس نہیں تھا۔ اس کے بعد جس ملک نے ایٹم بم بنالیا تو دوسری ایٹمی قوت کو اس کے خلاف ایٹم بم چلانے کی جرات نہیں ہوئی۔ جنگ شروع کرنا آسان اور ختم کرنا مشکل ہے تو یہ مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ مسلمان تو ہمیشہ حالت جنگ میں رہتے ہیں۔ وہ ایک جنگ سے نکلتے اور دوسری جنگ میں داخل ہوتے ہیں۔ جب تک ہم ایسا کرتے رہے ترقی بھی کرتے رہے اور دنیا میں عزت اور وقار سے زندہ بھی رہ سکے۔ ہماری تاریخ اس پر گواہ ہے۔