واٹر بورڈ میں کنڈی مینز، ہیلتھ ورکرز کی بھرتی کا فیصلہ ہوگیا

148

کراچی (رپورٹ: محمد انور) کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو ایس بی) نے فوری طور پر کنڈی مینوں اور ہیلتھ ورکرز کی اسامیوں پر بھرتیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ یہ بات بھی طے کرلی گئی ہے کہ مرحوم ملازمین کے کوٹے پر بھرتیاں کرنے کے لیے درخواستیں ہر 3 ماہ بعد طلب کی جائیں گی۔ یہ بات کے ڈبلیو اینڈ ایس بی کے ایم ڈی انجینئر اسد اللہ خاں نے اتوار کو ”جسارت “سے گفتگو کرتے ہوئے بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے اس بات کا سخت نوٹس لیا تھا کہ انتقال کرجانے والے ملازمین کے بچوں کو ڈیسزسٹ کوٹہ کے تحت فوری ملازمت فراہم کرنے کے بجائے 3 سال کے وقفے سے ملازمتیں دیں جاتی ہیں۔ انہوں نے ہدایت کی ہے کہ انتقال کرجانے والے ملازمین کے کسی ایک فرد کو زیادہ سے زیادہ 3 ماہ کے اندر امیدوار کی قابلیت کے مطابق نوکری پر رکھا جائے۔ ایم ڈی اسد اللہ خاں نے کا کہنا تھا کہ واٹر بورڈ نے ہیلتھ ورکرز اور کنڈی مینز کی خالی اسامیوں پر بھی جلد بھرتیاں کرنے کے لیے درخواستیں وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ سنیٹری ورکر و ہیلتھ ورکرز کی ماہانہ تنخواہ کم ازکم 25 ہزار روپے کرنے کے لیے بھی وزیر بلدیات نے سفارشی رپورٹ طلب کی ہے۔ شہر میں پانی کی قلت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر واٹر بورڈ کے سربراہ نے کہا ہے کہ نئی مردم شماری کے حوالے سے کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60لاکھ ہوچکی ہے اس لحاظ سے کراچی کو یومیہ 950 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے جبکہ ان دنوں حب ڈیم اور دریائے سندھ سے 450 ایم جی ڈی پانی کراچی کے لوگوں کو ملتا ہے اس طرح ان دنوں بھی شہر کو ضرورث کے مقابلے میں تقریباً 500 سو ملین گیلن پانی کم مل رہا ہے۔ پانی کی یہ قلت کے فور کے منصوبے کی تکمیل تک برقرار رہے گی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ نئے منصوبوں کے لیے پانی کے کنکشن کی این او سی دی جارہی ہے تاہم ان منصوبوں کو پانی کے فور پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد ہی دیا جاسکے گا۔ اسد اللہ خاں نے بتایا کہ 8 انچ سے بڑی لائنوں سے پانی کے کنکشنز پر پابندی عاید کردی گئی ہے۔ تاہم 8 انچ کی لائن سے پانی کے کنکشنوں کو چیک کرکے انہیں چارجز کی وصولی کے بعد ریگولرائز کیا جارہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شہر میں واٹر بورڈ کے صرف 8 ہائیڈرنٹس ہیں ان کے سوا جو بھی ہائینڈرنٹ چل رہے ہیں وہ غیر قانونی ہیں۔ انہیں ختم کرنے کی ذمے داری پولیس کی ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ عدالت عظمیٰ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی ذمے دار پولیس کو قرار دے چکی ہے۔ اسد اللہ خاں کا کہنا ہے کہ واٹر بورڈ کے ہائینڈرنٹس سے یومیہ 19 ایم جی ڈی پانی حاصل کیا جاتا ہے جو ضرورت مندوں کو مقرر کردہ چارجز کے عوض فراہم کیا جاتا ہے۔