بھارت میں عام انتخابات نتیجہ کیا نکلے گا؟

255

بھارت میں عام انتخابات کے لیے ”اپریل سے پولنگ شروع ہوچکی ہے جو مختلف مرحلوں میں 19 مئی تک جاری رہے گی۔ 23 مئی کو گنتی ہوگی اور 25 مئی کو نتائج کا اعلان کردیا جائے گا۔ انتخابات میں 22 کروڑ رجسٹرڈ ووٹرز حصہ لے رہے ہیں، جب کہ مسلمانوں اور دِلّتوں کے لاکھوں ووٹ اس خدشے کی بنیاد پر درج نہیں ہوسکے کہ وہ مودی حکومت کے خلاف استعمال ہوسکتے ہیں۔ لوک سبھا کی 513 نشستوں کے لیے پورے ملک میں 10 لاکھ پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے سیکورٹی کا عملہ تعینات کیا گیا ہے۔ پاکستان کے برعکس بھارت میں انتخابات کے موقع پر نگران حکومت قائم نہیں کی جاتی اور انتخابات برسرِاقتدار حکومت کی نگرانی ہی میں منعقد ہوتے ہیں جس میں دھاندلی کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن بھارتی الیکشن کمیشن کو اتنے وسیع اختیارات حاصل ہیں کہ وہ دھاندلی کے ہر سوراخ کو بند کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اگر اس کے باوجود دھاندلی ثابت ہوجائے تو وہ انتخابات کو کالعدم اور دھاندلی کے مرتکب افراد کو نااہل قرار دے سکتا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد دھاندلی کا شور نہیں مچتا اور تمام سیاسی جماعتیں خوشدلی سے نتائج کو قبول کرلیتی ہیں۔
بھارت بھی پاکستان کی طرح بہت سے سماجی، معاشرتی اور معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے، اس کے اندر طبقاتی تقسیم بہت گہری ہے، غربت کی شرح بہت زیادہ ہے، کم و بیش 30 فی صد افراد غربت کی سطح سے بھی نیچے زِندگی گزار رہے ہیں۔ سماجی سہولتوں کا یہ حال ہے کہ بہت سے گھروں میں بیت الخلا نہیں ہے اور لوگوں کو رفعِ حاجت کے لیے کھیتوں اور جنگلوں میں جانا پڑتا ہے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے لوگوں میں شدید احساسِ محرومی پیدا کررکھا ہے، کہیں دولت کے انبار لگے ہوئے
ہیں اور کہیں ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔ اخلاقی اعتبار سے بھی بھارتی معاشرہ شدید انحطاط کا شکار ہے۔ یہ ان ملکوں میں سرفہرست ہے جہاں جنسی جرائم سب سے زیادہ ہوتے ہیں لیکن بھارتی انتخابات میں ان مسائل کو موضوع بحث نہیں بنایا جاتا۔ چالاک سیاستدانوں نے بھارتی عوام کو مذہبی منافرت کی دلدل میں پھنسا رکھا ہے۔ ہندوستان کی تقسیم کو 72 سال ہوگئے لیکن بھارتی عوام کو ابھی تک یہ باور کرایا جارہا ہے کہ پاکستان نہیں بننا چاہیے تھا، اگر بن گیا ہے تو اب اسے برقرار نہیں رہنا چاہیے، انتہا پسند ہندو جماعتیں اکھنڈ بھارت کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں اور اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے وہ اپنی دانست میں سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ انتہا پسند ہندو جماعتیں بھارت میں مسلمانوں کا وجود بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو ہندو بنانے کی تحریک چلا رکھی ہے، ان کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ اگر مسلمان بھارت میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ہندو بن کر رہنا ہوگا، ورنہ وہ پاکستان چلے جائیں۔ اس وقت بھارت میں مسلم آبادی کا تناسب 12 سے 15 فی صد کے درمیان ہے۔ بھارت کا سیکولر آئین انہیں تمام بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں انہیں 12 فی صد کوٹا ملنا چاہیے، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی اسی تناسب سے ان کی نمائندگی ہونی چاہیے، لیکن عملاً ایسا نہیں ہے، سرکاری ملازمتوں میں 2 فی
صد سے زیادہ مسلمان نہیں ہیں وہ بھی تیسرے درجے میں۔ اعلیٰ مناصب پر خال خال ہی کوئی مسلمان نظر آتا ہے۔ اگر کسی اعلیٰ عہدے پر کوئی مسلمان پہنچ جاتا ہے تو اسے اپنی نوکری بچانے کے لیے ہندوﺅں سے بڑھ کر ہندو بننا پڑتا ہے۔ منتخب اداروں میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ آل انڈیا کانگریس بھارت کی بانی جماعت ہے، اگرچہ اس نے بھی ہمیشہ مسلمان دشمن پالیسی اپنائے رکھی، سب سے زیادہ مسلم کش فسادات اس کے دورِ حکومت میں ہوئے، تاریخی بابری مسجد بھی اسی کے دور میں شہید کی گئی۔ پاکستان دشمنی میں بھی کانگریس کے کارنامے کم نہیں ہیں، پاکستان کے خلاف 2 بڑی جنگیں اسی کے دور میں لڑی گئیں، پاکستان کو توڑنے اور مشرقی پاکستان کو بنگلادیش بنانے کا ”کارنامہ“ بھی کانگریسی حکومت ہی نے انجام دیا، لیکن اسلام اور پاکستان دشمنی کے باوجود اس نے سیکولر ازم کا جھنڈا اُٹھا رکھا تھا اور بھارتی مسلمان جانے بچانے کے لیے اس کے گرد جمع ہونے پر مجبور تھے۔ کانگریس کے بعد جو انتہا پسند ہندو جماعتیں اقتدار میں آئیں انہوں نے منافقت کا لبادہ اُتار پھینکا اور سیکولرازم کی جگہ ”ہندتوا“ کا پرچار کرنے لگیں۔ یعنی بھارت سیکولر نہیں، خالصتاً ہندو اسٹیٹ ہے اور یہاں ہر چیز کو ہندومت کے سانچے میں ڈھالا جائے گا اور مسلمان ہو یا عیسائی یا کسی اور مذہب کو ماننے والے، اِن سب کو ہندو بننا پڑے گا۔
بھارت کے موجودہ انتخابات اسی پس منظر میں ہورہے ہیں، حکمران پارٹی بی جے پی اور اس کے وزیراعظم نریندر مودی نے انتخابات جیتنے کے لیے ہندو اکثریت کو مسلمان اور پاکستان دشمنی میں دیوانہ بنا رکھا ہے۔ نریندر مودی نے ہندو جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لیے پاکستان پر اسٹرٹیجک اسٹرائیک کا ڈراما بھی رچایا اور دعویٰ کیا کہ بھارت نے پاکستان پر اچانک حملہ کرکے بالاکوٹ میں واقع ایک مدرسے کو تباہ اور اس میں موجود تین سو طلبہ کو ہلاک کردیا ہے۔ لیکن برسرِ زمین وہ اپنا یہ دعویٰ ثابت نہ کرسکا اور پاکستان نے غیر ملکی صحافیوں کو مذکورہ علاقے میں لے جا کر دکھا دیا کہ وہاں کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔ چناں چہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو تسلیم کرنا پڑا کہ بھارت کا دعویٰ جھوٹ تھا۔ اس کے برعکس پاکستان نے جس حملہ آور بھارتی طیارے کو مار گرایا تھا اس کا ملبہ اور اس کے زیر حراست پائلٹ کو پوری دُنیا نے دیکھا۔ اسی طرح پاکستان کے ایف 16 طیارے کو مار گرانے کا بھارتی دعویٰ بھی جھوٹ ثابت ہوا۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی اس ناکامی نے اسے ایک زخمی سانپ بنادیا ہے جو کسی وقت بھی اپنے ہدف پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔ موجودہ انتخابات کا نتیجہ خواہ کچھ نکلے، انتہا پسند ہندو جماعتوں نے ہندو اکثریت میں مسلمان اور پاکستان دشمنی کے جذبات کو اس انتہا پر پہنچادیا ہے کہ اس سے واپسی دشوار ہوگی۔ جو جماعت بھی برسراقتدار آئی اُسے اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے پاکستان دشمنی کی سیڑھی ہی استعمال کرنا پڑے گی۔ اگر بی جے پی نے دوبارہ حکومت بنائی تو پاکستان کے خلاف اس کا رویہ مزید سخت ہوجائے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے نریندر مودی سے مسئلہ کشمیر پر جس مثبت رویے کی اُمید باندھی ہے وہ کبھی پوری نہ ہوگی، اس کے برعکس کشمیری عوام کو زیادہ مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں بھاراتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے اور یہی وعدہ مقبوضہ کشمیر کے عوام پر ایک تازیانہ ثابت ہوگا۔ کشمیری عوام نے تو لوک سبھا کے انتخابات کا بائیکاٹ کرکے اپنا فیصلہ سنادیا ہے