کشمیر کمیٹی کہاں ہے؟

230

 

 

عمران خان کی حکومت قائم ہوتے ہی پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے احیا کا مطالبہ زور پکڑ گیا تھا۔ چناں چہ حکومت نے تلاشِ بسیار کے بعد ایک نیک نام سیاستدان سیّد فخر امام کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کردیا جسے قومی سطح پر سراہا گیا اور توقع ظاہر کی گئی کہ کشمیر کمیٹی ماضی کے برعکس سید فخر امام کی قیادت میں زیادہ فعالیت کا مظاہرہ کرے گی اور کشمیری عوام کی توقعات پر پورا اُترے گی لیکن کئی ماہ گزر گئے ہیں ابھی تک کشمیر کمیٹی کا اَور چھَور معلوم نہیں ہوسکا۔ یہ بات بھی ابھی تک صیغہ راز میں ہے کہ سید فخر امام نے کشمیر کمیٹی کا چارج لے لیا ہے یا نہیں اور کمیٹی کتنے ارکان پر مشتمل ہے اور اس میں کون لوگ شامل ہیں۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ پارلیمانی کمیٹیوں میں کشمیر کمیٹی کو اس اعتبار سے خصوصی اہمیت حاصل ہے کہ اس کا چیئرمین وفاقی وزیر کا درجہ رکھتا ہے اور اسے وہ تمام مراعات دی جاتی ہیں جو ایک وفاقی وزیر کو حاصل ہوتی ہیں۔ وفاقی وزیر تو کابینہ اور وزیراعظم کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے لیکن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ کمیٹی کو سالانہ 17 کروڑ روپے کا بجٹ بھی ملتا ہے جو سابق چیئرمین کی فرمائش پر آڈٹ فری قرار دیا گیا ہے۔ کشمیر کمیٹی کی گزشتہ 10 سالہ کارکردگی پر ایک نظر ڈالیں تو اس کے پلّے کچھ بیانات اور چند کشمیر کانفرنسوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اس کمیٹی کو مقبوضہ کشمیر کی اضطراب انگیز صورتِ حال میں کشمیر کاز کے لیے جو کرنا چاہیے تھا وہ اس نے نہیں کیا بلکہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی سرگرمیاں بعض اوقات کشمیر کاز کے منافی نظر آئیں جس پر حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی کو بھی اعتراض کرنا پڑا اور ان کی طرف سے چیئرمین کشمیر کمیٹی کو سبکدوش کرنے کا مطالبہ منظر عام پر آیا۔
بہرکیف اب جن صاحب کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا ہے وہ نیک نام ضرور ہیں لیکن عمر کے اس مرحلے میں ہیں جب آدمی سیاست سے عملاً کنارہ کش ہوجاتا ہے، وہ خاندانی روایت کے مطابق اپنی آبائی نشست سے انتخابات میں حصہ لے کر قومی اسمبلی میں تو ضرور پہنچ جاتے ہیں لیکن عملی سیاست میں ان کی کارکردگی صفر نظر آتی ہے، ان کے مقابلے میں ان کی اہلیہ بیگم عابدہ حسین سیاست میں زیادہ فعال رہی ہیں لیکن شاید عمر کا تقاضا ہے کہ وہ بھی گوشہ گمنامی میں چلی گئی ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ سید فخر امام کو کشمیر کاز سے کتنی دلچسپی ہے اور وہ کس حد تک کشمیری عوام کی توقعات پر پورا اُتر سکتے ہیں لیکن اب جب کہ انہیں کشمیر کمیٹی کی سربراہی سونپ دی گئی ہے ہم اُمید کرتے ہیں کہ وہ اپنی اس ذمے داری کو اخلاص اور دیانتداری سے نبھائیں گے اور مقبوضہ کشمیر کی موجودہ سنگین صورتِ حال کے پیش نظر کشمیر کاز کو آگے بڑھانے
میں معاون ثابت ہوں گے۔ ان کی سب سے پہلی ذمے داری تو یہ ہے کہ وہ کشمیر کمیٹی کی تشکیل نو کریں اور پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں میں سے مستعد اور اہل ارکان کا انتخاب عمل میں لائیں اس کام میں حکمراں پارٹی بھی ان کی معاونت کرسکتی ہے، پھر کشمیر کمیٹی کا افتتاحی اجلاس بلا کر اس کی سرگرمیوں میں تعین کریں۔ یہ تصور بالکل غلط ہے کہ کشمیر کمیٹی کا دائرہ کار صرف بیانات تک محدود ہے وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتی۔ اس کے پاس مادی وسائل کی کمی نہیں ہے، وہ اپنے دائرہ کار کو جہاں تک ممکن ہو بڑھاسکتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ بھارات نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی انتہا کردی ہے، وہ کشمیری عوام کی آواز کو دبانے اور اُن کی ہر اعتبار سے منصفانہ تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے ظلم و جبر کے تمام حربے آزما رہا ہے لیکن عالمی سطح پر اسے ایکسپوز کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ کشمیر کمیٹی دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے پاکستانی سفارت خانوں کی مدد سے یہ کام باآسانی کرسکتی ہے، تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ کشمیر کمیٹی مقبوضہ علاقے میں ہونے والے واقعات کو پوری توجہ سے مانیٹر کرے اور ہفتہ وار بلٹن کے ذریعے ماضی کے فیڈ بیک کے ساتھ ان واقعات کو مشتہر کرکے پاکستانی سفارت خانوں کے ذریعے انہیں پوری دُنیا میں پھیلائے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ عالمی سطح پر بھارتی مظالم کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور بھارت پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر مقبوضہ کشمیر کی یک رُخی اور مسخ شدہ تصویر پیش کررہا ہے۔ کشمیر کمیٹی مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتِ حال پر اپنے ہفتہ وار بلٹن کی اشاعت کو ایک مستقل فیچر کی حیثیت دے سکتی ہے جو بلاشبہ کشمیر کاز کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ ’’کشمیر بلٹن‘‘ میں حریت قائدین اور ماہرین کے تجزیے اور تبصرے بھی شائع کیے جاسکتے ہیں۔ یہ امر قابل ذِکر ہے کہ مذاکرات کی بار بار ناکامی کے باوجود پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات پر زور دے رہا ہے لیکن مذاکرات کے لیے جس سازگار ماحول کی ضرورت ہے اس پر کسی کی نظر نہیں ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے اس حوالے سے ایک پانچ نکاتی فارمولا پیش کیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت سب سے پہلے کشمیر کی بین الاقوامی متنازع حیثیت کو تسلیم کرے۔ دوم، اقوام متحدہ کی نگرانی میں اپنی قابض افواج متنازع علاقے سے واپس بلائے۔ سوم، مقبوضہ علاقے میں موجود تمام کالے قوانین ختم کیے جائیں۔ چہارم، تمام گرفتار کشمیری باشندوں اور لیڈروں کو رہا کیا جائے۔ پنجم، یہ کہ جو لوگ کشمیریوں کے قاتل ہیں ان پر مقدمہ چلا کر انہیں سخت سزا دی جائے۔ کشمیر کمیٹی کو مذاکرات سے قبل ماحول سازی کے لیے اس پانچ نکاتی فارمولے کی بڑے پیمانے پر تشہیر کرنی چاہیے۔ مسئلہ کشمیر پر اردو، انگریزی اور عربی میں موثر لٹریچر کی تیاری بھی کمیٹی کے فرائض میں شامل ہے۔ کشمیر کمیٹی اگر کرنا چاہے تو اس کے پاس کرنے کو بہت کام ہیں لیکن فی الحال تو یہی سوال پھن پھیلائے کھڑا ہے کہ کشمیر کمیٹی کہاں ہے؟