وزیر اعظم عمران خان نے دورۂ چین سے قبل ’’ہم باز آئے ایسی محبت سے‘‘ کے انداز میں اعلان کیا ہے کہ پاکستان اب کبھی بھی افغانستان کے کسی داخلی تنازعے کا حصہ نہیں بنے گا کیوںکہ پاکستان اور افغانستان دونوں نے حالات سے بہت زخم کھائے ہیں۔ امریکا کے نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے عمران خان کے اس بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس پالیسی سے پاکستان کو ایک نمایاں مقام حاصل ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس راہ میں عمران خان کا اعلان اور زلمے خلیل زاد کا خیرمقدم ہی کافی نہیں بلکہ روس سے امریکا اور ایران سے بھارت تک تمام ملکوں کی طرف سے ایسے ہی اعلان اور عمل کی ضرورت ہے۔ یہی نہیں خود افغان قیادت، متحارب دھڑوں اور صاحب الرائے افراد کی طرف سے بھی یہ اعلان ہونا ضروری ہے کہ اس بار وہ اپنے داخلی تنازعات کو خود اپنی بنیادوں پر اپنے انداز سے حل کریں گے کیوںکہ پاکستان افغان تنازعے کے اہم کرداروں میں تو شمار ہوتا ہے مگر تنہا بیرونی کردار ہر گز نہیں۔ اس لیے صرف پاکستان کا اعلان ہی کافی نہیں۔ پاکستان ماضی میں افغانستان کی داخلی سیاست میں پسند و ناپسند کے کھیل کا حصہ بننے سے انکاری رہا ہے۔ عمران خان کی طرح پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے اپنے پہلے دور اقتدار میں یہ اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں ہمارا کوئی لاڈلہ نہیں۔ انہوں نے اس کے لیے ڈارلنگ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سوویت افواج کے انخلا کے بعد تخت کابل کی خاطر نجیب حکومت اور مجاہدین گروپوں کے درمیان خوں ریز لڑائی چل رہی تھی۔ پاکستان افغان مجاہدین کی حمایت کرکے کابل میں ایک وسیع البنیاد حکومت کے لیے کوشاں تھا اور نجیب حکومت خود کو قانونی اور جائز قرار دے کر تسلیم کرنے پر اصرار کر رہی تھی۔ پاکستان میں ایک مخصوص حلقے نے بے نظیر بھٹو کی طرف سے افغانستان کے اندرونی معاملات اور کشمکش کو ہدف تنقید بنایا تھا اور اس حلقے کا خیال تھا کہ اس انداز کی غیر جانبداری افغانستان میں ایک دوست حکومت قائم کر نے کے لیے پاکستان کی برسوں کی محنتوں اور سرمایہ کاری کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اس حلقے کا خیال تھا کہ پاکستان افغانستان میں اس بے اعتنائی اور لاتعلقی کے بجائے مجاہدین کو اپنا ڈارلنگ سمجھے اور قرار دے۔
بے نظیر بھٹو کا یہ اعلان وقت کی ہوائوں میں یوں تحلیل ہوگیا تھا کہ افغانوں کی خانہ جنگی، انا ولا غیری کی پالیسی پر اصرار، عالمی طاقتوں کی طرف سے اس جنگ زدہ ملک کے زخموں پر مرہم رکھنے میں عدم دلچسپی نے پاکستان کو اپنی غیر جانبداری کی اس سوچ پر قائم رہنے ہی نہیں دیا۔ ہر کوئی یہاں اپنے اپنے لاڈلے تراشتا اور پالتا رہا جس کی وجہ سے پاکستان کو بھی پسند و ناپسند کی راہ سے ہٹنے میں مشکل پیش آئی۔ آج بھی افغانستان میں درجنوں گروپ کسی نہ کسی طاقت اور ملک کے ڈارلنگ ہیں۔ ان گروپوں کے درمیان باہمی نقطہ ٔ اتصال قائم نہیں ہو رہا۔ وقت اور حالات نے پاکستان کو اس حوالے سے بہت کچھ سکھا دیا ہے جن میں یہ سبق بھی شامل ہے کہ پڑوسی کے گھر کی آگ کو لطف لینا حماقت ہوتی ہے۔ جلد یا بدیر وقت کی سازشوں کے ہوائیں بھڑکتے شعلوں کو آپ کی دہلیز کی راہ بھی دکھا سکتے ہیں۔ گزشتہ دہائیوں میں پاکستان کے شہر اور قصبے بدامنی، خوں ریزی اور دہشت گردی کے باعث کابل قندھار، لوگر اور خوست ہی بنے رہے۔ گوریلا اور فدائی طرز جنگ کے وہ تمام طریقے جو کبھی افغانستان میں آزمائے جا رہے تھے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپنائے جا رہے تھے۔ پاکستان کی قیادت نے کبھی یہ تصور بھی نہ کیا ہوتا کہ کہ جہاد افغانستان کا جلتا ہوا کمبل آگے چل کر کبھی خود انہی پر اُلٹ کر رہ جائے گا۔ اس جنگ نے پاکستان کی معیشت کی چولیں ہلا کر رکھ دیں، سماجی تانے بانے کو بکھیر دیا اور نتیجے کے طور پر اجتماعی زندگی کا طور طریقہ ہی بدل گیا۔ چیک پوسٹیں بننے لگیں، باڑھیں بندھنے لگیں، دیواریں اونچی ہونے لگیں اور خوف نے مختلف ناموں اور حیلوں سے ہمارے سماج میں گھر کر لیا۔ اس مرحلے کو روکا جا سکتا تھا اگر افغانستان کے متحارب فریق اپنی انائوں کی قربانی دے کر بڑے پن کا ثبوت فراہم کرتے مگر ہر متحارب دھڑے کے بیرونی سرپرست اور معاون وسہولت کار شاید اُ س وقت ایسا نہیں چاہتے تھے۔ یوں بے نظیر بھٹو کا اعلان لاتعلقی صرف اعلان ہی ثابت ہوا۔ اب برسوں بعد وقت کے چرکے سہنے کے بعد پاکستان کے ایک اور حکمران یہی بات مختلف انداز میں کہی ہے تو یہ بھی ایک تاریخی موقع ہے۔
افغانستان کے متحارب فریق ایک دوسرے کے ساتھ میز پر بیٹھنے اور ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں۔ فریقین کو بانس پر چڑھائے رکھنے والے اب بھی پردوں کے پیچھے بیٹھ کر اپنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان افغانستان کی داخلی کشمکش میں نہ صرف غیر جانبدار ہونے کو تیار ہے بلکہ آئندہ ایسی کسی آگ میں کودنے سے بھی توبہ تائب ہو نے کو تیار ہے کیوںکہ اس کا قومی وجود اور جغرافیائی سالمیت پرائی آگ میں جل کر بھسم ہونے سے بال بال بچے ہیں۔ ایک سنگیں حادثہ اسے چُھو کر گزر گیا ہے۔ اب یہ افغان قیادت کا پر منحصر ہے کہ وہ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے قومی ڈائیلاگ کا راستہ اپنائیں۔ کسی دوسرے ملک کے مفادات کا ایندھن بننے کے بجائے اپنی قومی وحدت کو مقدم رکھیں۔ پاکستان کے اعلان کے بعد افغانستان میں اپنے حصے کی اسٹرٹیجک ڈیپتھ تلاش کرنے والے دوسرے عالمی اور علاقائی ممالک بھی اگر اس پالیسی پر کاربند رہیں اور اس کا برملا اظہار کریں تو اس سے عشروں سے جاری جنگ کو بامعنی اور نتیجہ خیز اختتام تک لایا جا سکتا ہے۔ سردست تو عمران خان کے اعلان پر جوش ملیح آبادی کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا