لیبیا ایک بار پھر تباہ کن آفت کے گھیرے میں

401

برطانیہ کے دفتر خارجہ کے وزیر مارک فیلڈ اس حقیقت کو نہ چھپا سکے کہ لیبیا میں آٹھ سال پہلے برطانیہ کی فوجی مداخلت کے نہایت تباہ کن نتائج برآمد ہوئے تھے جس کے اب تک تاریک سائے منڈلارہے ہیں۔ 2011 میں لیبیا میں عرب بہار کی آڑ میں معمر قذافی کا تختہ الٹنے اور ان کی جان لینے کے لیے مغربی اتحادیوں نے جن میں برطانیہ، امریکا اور فرانس پیش پیش تھے، باغیوں کی مدد کے لیے ناٹو کے تابڑ توڑ حملے کر کے قیامت ڈھائی تھی۔ اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کا دعویٰ تھا کہ یہ فوجی مداخلت معمر قذافی کے باغیوں کا قتل عام روکنے کے لیے انسانی ہمدردی کا اقدام ہے۔ دراصل مغربی طاقتوں نے قذافی کا تختہ الٹنے اور لیبیا کے تیل اور سونے کی دولت پر قبضہ کرنے کے لیے شورش برپا کی تھی جس کے دوران لیبیا کے شہر کھنڈر بن کر رہ گئے، کئی ہزار افراد ہلاک ہوگئے اور پانچ لاکھ سے زیادہ لیبیائی جو پورے افریقا میں سب سے زیادہ خوشحال مانے جاتے تھے نادار اور بے گھر ہوگئے۔
صدر بش کے دور کے نائب وزیر دفاع ڈگلس فیتھ نے عراق کی جنگ کے بارے میں اپنی کتاب میں یہ انکشاف کیا ہے کہ 9/11سے بہت پہلے امریکا نے معمر قذافی کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ امریکا اور اس کے اتحادی 1969سے معمر قذافی سے سخت ناراض جلے بیٹھے تھے جب انہوں نے لیبیا میں غیر ملکی بینکوں کو قومی تحویل میں لے لیا تھا اور مغربی طاقتوں کے صبر کا پیمانہ اس وقت لبریز ہوگیا جب قذافی نے لیبیا کے تیل کے ذخائر قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ لیبیا کے تیل کی دولت لیبیا کے عوام کی دولت ہے اور اسے انہیں اپنی خوشحالی کے لیے استعمال کرنے کا حق ہے۔ اسی وقت مغربی قوتوں نے قذافی کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ لیبیا کا جوہری پروگرام اور جوہری اسلحہ بنانے کی صلاحیت تھی۔ مغربی اتحادیوں نے یہ مشن برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر کے سپرد کیا کہ وہ قذافی کو اپنا جوہری پروگرام ترک کرنے اور جوہری تنصیبات امریکا کے حوالے کرنے پر آمادہ کریں۔ چنانچہ 2004 میں ٹونی بلیر بھاگے بھاگے طرابلس گئے اور معمر قذافی کو ڈرایا کہ ان کا حشر بھی صدام حسین کی طرح ہو سکتا ہے۔ ٹونی بلیر نے ایسی عیاری سے معمر قذافی کو شیشے میں اتار ا کہ وہ اپنی جوہری تنصیبات جہاز میں لاد کر امریکا کے حوالے کرنے پر تیار ہوگئے۔
مغربی قوتیں اس وقت بھڑک اٹھیں جب انہیں پتا چلا کہ معمر قذافی نے لیبیا کے سینٹرل بینک کو سو فی صد قومی ملکیت میں لینے اور دینار کی کرنسی کے اجرا کے بعد افریقا کے مرکزی بینک کے قیام کا منصوبہ تیار کر لیا ہے اور اس مقصد کے لیے 150ٹن سونا مخصوص کیا ہے، اس منصوبے کی وجہ سے امریکا کو اپنے ڈالر کے ڈوبنے کا شدید خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ 2011 میں معمر قذافی کے خلاف عوام کو بھڑکانا آسان نہیں تھا کیوںکہ 1967میں جب شاہ ادریس کو تخت سے اتار کر فوج کے بل پر معمر قذافی برسر اقتدار آئے تھے تو اس وقت لیبیا افریقا کا غریب ترین ملک تھا لیکن چالیس سال کے دور میں قذافی نے تیل کی دولت اور غیر ملکی بینکوں کو مغربی تسلط سے آزاد کرا کے ملک کو افریقا کا سب سے زیادہ خوشحال ملک بنا دیا۔ قذافی کے دور میں ہر شہری کو مفت صحت کی سہولت حاصل تھی، ہر شہری کے لیے ہر سطح پر تعلیم مفت تھی، بجلی بالکل مفت تھی، نئے شادی شدہ جوڑوں کو حکومت کی طرف سے وافر مالی امداد دی جاتی تھی تاکہ وہ خوش حال زندگی بسر کر سکیں۔ شہریوں کو بلا سود قرضوں کی سہولت حاصل تھی۔ معمر قذافی کے دور سے پہلے گنی چنی لڑکیاں یونیورسٹی جاتی تھیں لیکن پچھلے چالیس برس میں یونیورسٹیوں میں طالبات کی تعداد نصف سے زیادہ ہے اور ساٹھ فی صد خواتیں بر سر روزگار ہیں۔ لیبیا نہ صرف شمالی افریقا کے ملکوں کے شہریوں کو روزگار فراہم کرتا تھا بلکہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے شہریوں کے لیے بھی روزگار کے دروازے کھلے تھے۔
معمر قذافی کا تختہ الٹنے اور ان کے قتل کے بعد، لیبیا میں اس بُری طرح سے افرا تفری مچی اور علاقائی سرداروں کے درمیاں اقتدار کے لیے ایسی سخت جنگ بھڑک اٹھی کہ مغربی قوتیں لیبیا پر اپنا تسلط نہ جما سکیں۔ پچھلے آٹھ سال کے دوران لیبیا ۳ متحارب حکومتوں میں بٹا رہا ہے۔ ایک طرف طبرق میں 2014 کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت تھی اور دوسری جانب طرابلس میں قائم قومی نجات کی حکومت تھی اور تیسری قومی مفاہمت کی GNA حکومت جو دراصل مغربی قوتوں نے 2015 کے آخر میں قائم کی تھی جس کو یورپی یونین اور امریکا کی حمایت حاصل ہے۔ اسی کے ساتھ مشرق میں ایوان نمائندگان کی حکومت کی حامی لیبین نیشنل آرمی ہے جس کے سربراہ جنرل خلیفہ حفتر ہےں۔ جنر ل حفتر، معمر قذافی کے پرانے ساتھی تھے لیکن وہ قذافی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں پکڑے گئے تھے اور قید کر لیے گئے تھے۔ امریکا نے ان کو قذافی کی قید سے آزاد کرایا تھا اور 1993سے وہ امریکا میں مقیم تھے جہاں انہوں نے امریکی شہریت لے کر سکونت اختیار کر لی تھی لیکن 2011 میں جب مغربی قوتوں نے قذافی کے خلاف شورش بھڑکائی تو جنرل حفتر فوراً لیبیا واپس آگئے اور باغیوں کی قیادت سنبھال لی۔
اب مغربی قوتوں کی پشت پناہی اور مدد و اعانت کے ساتھ جنرل حفتر نے طرابلس میں قائم حکومت کو گرانے کے لیے خوںریز فوج کشی شروع کر دی ہے، جس کے دوران کئی سو لیبیائی ہلاک ہو چکے ہیں۔ جنرل حفتر کو فرانس کی کھلم کھلا حمایت حاصل ہے اور مصر کے فوجی آمر جنرل عبدالفتاح السیسی کی پشت پناہی اور مشورے بھی انہیں حاصل ہیں۔ پچھلے دنوں جنرل السیسی نے لیبیا کی صورت حال پر واشنگٹن میں صدر ٹرمپ سے صلاح مشورہ کیا ہے۔ جنرل حفتر کو امریکا کی شہہ پر سعودی عرب کی بھی حمایت اور مالی امداد بھی حاصل ہے۔ مغربی قوتیں اس وقت لیبیا پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ بلاشبہ ان کا اولین مقصد لیبیا کے تیل کی دولت پر قبضہ کرنے اور افریقا میں اپنا اثر جمانے کا ہے اور اسی کے ساتھ کوشش ہے کہ لیبیا سے یورپ میں پناہ گزینوں کے سیلاب کو روکنے کے اقدامات کیے جائیں۔ غرض لیبیا کو پھر ایک بار تباہ کن آفت کا سامنا ہے۔