چھوٹے کلینکس اور ڈسپنسریوں میں انجکشن لگانے پر فوری پابندی لگائی جائے، حکومت دوبارہ استعمال نہ ہونے والی سرنج متعارف کرائے، پاکستان سوسائٹی آف ہیلتھ سسٹم فارماسسٹ کی پریس کانفرنس

404

کراچی (اسٹاف رپورٹر) ملک کے نام ور فارماسسٹس نے چھوٹے کلینکس اور ڈسپنسریوں میں انجکشن لگانے پر فوری طور پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کلینکس اورڈسپنسریوں میں لگائے جانے والے99 فی صد انجکشن غیر ضروری ہوتے ہیں، ملک میں ایڈز، ہیپا ٹائٹس بی اور سی پھیلانے کا ایک اہم سبب سرنجز کا دوبارہ استعمال ہے، حکومت کو فوری طور پر دوبارہ استعمال نہ ہونے والی سرنجز متعارف کروانی چاہئیں، سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن اور اسپتالوں میں فارماسسٹس بھرتی کیے جانے چاہئیں تاکہ دواﺅں کے غلط استعمال سے ہونے والی اموات اور نقصانات سے بچا جا سکے، بے بی نشوا جیسی کئی بچیاں اور متعدد مریض روزانہ دواﺅں کے غلط استعمال سے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان سوسائٹی آف ہیلتھ سسٹم فارماسسٹس کے سی ای او عبداللطیف شیخ نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پی ایس ایچ پی کی فنانس سیکریٹری عمیمہ مزمل، یاسر ہاشمی، عمر علی خان اور دیگر موجود تھے۔ پی ایس ایچ پی کے سی ای او عبداللطیف شیخ کا کہنا تھا کہ بے بی نشوا کی موت کی وجہ ایک جان بچانے والی دوائی کا غلط طریقے سے استعمال تھا، اسے وہ دوا اگر ڈرپ کے ذریعے دی جاتی تو وہ صحت یاب ہو سکتی تھی، اس طرح کی غلطیاں روزانہ متعدد مریضوں کی زندگیوں کے چراغ گل کر دیتی ہیں، اسپتالوں میں اگر ماہر فارماسسٹس موجود ہوں تو اس طرح کی غلطیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ لاڑکانہ میں پھیلنے والی ایچ آئی وی ایڈز کی وبا کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سرنجز کا دوبارہ استعمال ایچ آئی وی ایڈز اور ہیپا ٹائٹس بی اور سی کا سبب بن رہا ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ دوبارہ استعمال نہ کی جانے والی سرنجز متعار ف کرائے تاکہ اس طرح کی بیماریوں سے بچا جا سکے، عوام میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ غیر ضروری طور پر ڈرپ اور انجکشنز لگوانے پر اصرار نہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر سال ساڑھے پانچ سو سے لے کر چھ سو ارب روپے کی ادویات تقسیم ہوتی ہیں، بدقسمتی سے ان دواﺅں کی مانیٹرنگ، سپلائی، اسٹوریج کا کوئی نظام موجود نہیں ہے، پاکستان میں ادویات چاکلیٹ اور ٹافیوں کی طرح خریدی اور کھائی جاتی ہیں، اب اس سلسلے کو بند ہوجانا چاہیے اور اس سلسلے میں حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دواﺅں کے از خود استعمال کو ترک کرنا ہوگا کیوں کہ ہماری قوم کو یہ علم ہی نہیں کہ دوائیاں کس طرح، کتنی مقدار اور کن حالات میں استعمال کرنی ہیں، پاکستان میں ابھی بھی سینکڑوں ملتے جلتے ناموں اور ایک جیسی دکھنے والی ادویات بنائی اور فروخت کی جا رہی ہیں، جس کی وجہ سے دواﺅں کے غلط استعمال اور ناقابل تلافی نقصان کے واقعات کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ کوئی ایسا فارماسسٹس موجود نہیں جو کمیشن کو دواﺅں کے درست استعمال اور اسپتالوں میں دواﺅں کی مریضوں کو درست فراہمی کے لیے رہنمائی کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جلد سندھ ہیلتھ کیئرکمیشن سے رابطہ کریں گے تاکہ کمیشن کی مدد سے میڈیکیشن ایررز کو کم سے کم کیا جائے۔ ان کا کہنا تھاکہ ہر ایسے واقعے کے بعد چند ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکس کو برطرف کردیا جاتا ہے، کچھ کو جیل بھیج دیا جاتا ہے، جو مسئلے کا حل نہیں، ہمیں ایسا نظام بنانا ہوگا تاکہ اس طرح کی غلطیوں سے بچا جا سکے۔ معروف فارماسسٹس عمیمہ مزمل کا کہنا تھا کہ حکومت کو دواﺅں کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں اور اس سلسلے میں ایک آگاہی مہم شروع کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کو دواﺅں کے غلط استعمال سے متعلق آگاہی دی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے میڈیکیشن ایررز کو کم کیا جا سکتا ہے اور ان کے نتیجے میں ہونے والی اموات سے بچا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن سے درخواست کی کہ وہ اپنا کردار اداکرے پاکستان سوسائٹی آف ہیلتھ سسٹم فارماسسٹس ان کی ہر ممکن مدد کو تیار ہے۔ پی ایس ایچ پی کے رکن یاسر ہاشمی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دواﺅں سے ہونے والی اموات کا کوئی قابل اعتماد ڈیٹا موجود نہیں اور بغیر درست اعداد و شمار کے کسی بھی طرح کی پالیسی بنانا ممکن نہیں، ہمیں فوری طور پر ایک سسٹم بنا کر دواﺅں کے استعمال سے ہونے والے نقصانات اموات اور ری ایکشنز کا ڈیٹا جمع کرنا ہوگا، جس کی بدولت دواﺅں کے غلط استعمال سے بچا جا سکے گا اور اموات میں کمی لائی جا سکے گی۔