ایک اور سونامی آنے والا ہے

221

 

 

من حیث القوم ہم خیرات اور زکوٰۃ دینے میں بڑی فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر ٹیکس دینے سے گریزاں رہتے ہیں، نام نہاد ماہرین کی رائے کے مطابق یہ صورتِ حال اِس بات کی غماض ہے کہ قوم حکومت پر اعتبار نہیں کرتی مگر زمینی حقائق، قومی نفسیات اور احساسات اس کی نفی کرتے ہیں۔ اصل وجہ یہ ہے کہ حکومت عوام کو سہولتیں اور مراعات دینے کے بجائے کابینہ کو نوازتی رہتی ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خیرات نام و نمود کی ایک ارزاں صورت ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ جو شخص 30 ہزار روپے کا ٹیکس نہیں دیتا، 30 لاکھ کا بیل خرید کر قربانی کے نام پر قربان کردیتا ہے کیوں کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا مفت میں اس کی تشہیر کرتا ہے اور ٹیکس کی ادائیگی باعث شہرت نہیں بنتی۔ ٹیکس حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع ہیں جہاں ہلدی لگتی ہے نہ پھٹکری، رنگ چوکھا آتا ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ ٹیکس ماہرین قومی نفسیات سے آگاہی نہیں رکھتے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ کھاتے پیتے اشخاص کو نان فائلر قرار دینے سے ملک اور قوم کو کیا حاصل ہوا؟۔ جو شخص پُرآسائش زندگی گزار رہا ہے اس سے ٹیکس کیوں نہیں لیا جاسکتا؟۔ علاوہ ازیں دیگر ذرائع سے ٹیکس لے کر قومی خزانے میں اضافہ کیا جاسکتا ہے، جوتے مرمت کرنے والے، نان چھولے والے ہزاروں روپے یومیہ کماتے ہیں مگر ان سے ٹیکس لینے کے بارے میں کبھی سوچا نہیں گیا۔ پیری مریدی کا دھندا کرنے والے تو ہاتھ پائوں ہلائے بغیر بے تحاشا کما رہے ہیں مگر ان سے ٹیکس نہیں لیا جاتا۔ حالاں کہ دُنیا میں ایسے کئی ملک ہیں جو ان کو ٹیکس کے دائرے میں رکھے ہوئے ہیں، ہمارا حکمران طبقہ ان سے مار کھا کر عوام پھٹکانے کی پالیسی پر عمل کرنا باعث سعادت سمجھتا ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت میں آنے کے بعد ٹیکس کی کمی کا رونا رو رہی ہے یہ کیسی صورت حال ہے کہ حزب اختلاف کے بجائے حزب اقتدار رو رہی ہے، پنجاب میں لاکھوں فیکٹریاں کام کررہی ہیں مگر ٹیکس کے دائرے میں چند ہزار ہی ہیں، کیوں کہ ٹیکس کی ادائیگی کے لیے فیکٹری کا رجسٹرڈ ہونا ضروری ہوتا ہے مگر حکمران طبقہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔ سوال یہ بھی ہے کہ عوام ٹیکس کیوں دیں؟۔ صحت، تعلیم اور تحفظ کی فراہمی حکومت کی اولین ذمے داری ہے مگر حکمران عوام سے ٹیکس لے کر شاہانہ زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ عشرت گہہ خسرو کے یہ مکین عوام کے ٹیکس پر پلتے ہیں اور غراتے بھی ہیں۔ وفاقی وزیر صحت جو سابق ہوچکے ہیں کا ارشاد ہے کہ حکومت 22 لاکھ سے زائد صحت کارڈ جاری کرچکی ہے اور یہ نوید بھی سنائی ہے کہ صحت کارڈ کے حامل شہریوں کو 7 لاکھ روپے سے زیادہ رقم علاج معالجے کی مد میں دی جائے گی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو حکومت چند روپے کی دوا دینے کی روادار نہیں وہ کسی بیمار کو 5 لاکھ روپے کیسے دے گی۔ صحت کارڈ کے اجرا کا اصل مقصد ارکان اسمبلی اور منظور نظر افراد کو نوازنہ ہے، عوام کو صرف بیوقوف بنایا جارہا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی فراہمی کو یقینی بنادیا جائے تو صحت کارڈ کی ضرورت ہی نہ پڑے، اگر حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرے، صحت اور تعلیم کے معاملے میں اپنی ذمے داری نبھاتی تو کون بدبخت ہے جو ٹیکس نہیں دے گا۔ ٹیکس نہ دینے کا الزام ذمے داریوں سے فرار کا آسان ترین راستہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ حکومت مختلف ٹیکس کی صورت میں کسی خون آشام عفریت کی طرح عوام کا خون پی رہی ہے۔ بجلی کا بل دیکھ کر آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور سوئی گیس کا بل دھڑکنوں کو بے ترتیب کردیتا ہے۔ کہنے والے سچ ہی کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نردوش ہیں، مانگے تانگے کی حکومت چلانا تنی ہوئی رسی پر چلنے کے مترادف ہے۔ نیا بجٹ نئے پاکستان میں مہنگائی کا ایک نیا سونامی لائے گا، ایک ایسا سونامی جو تنخواہ دار طبقے کو بھی بہا لے جائے گا۔