پی ٹی ایم کی سیاست اور ریاست

230

 

 

آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ایک طویل پریس کانفرنس میں بھارت کے ساتھ جاری کشیدگی سمیت کئی اہم امور پر تفصیل سے اظہار خیال کیا۔ انہی میں ایک اہم موضوع پشتون تحفظ موومنٹ کی سرگرمیاں بھی تھیں۔ میجر جنرل آصف غفور نے پی ٹی ایم کی قیادت سے کئی معنی خیز سوالات بھی پوچھے اور انہیں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا وقت اب ختم ہو چکا ہے کیوںکہ ریاست کے ساتھ کوئی بھی لڑائی مول نہیں لے سکتا۔ جواب آں غزل کے طور پر وائس امریکا نے پی ٹی ایم کے لیڈر منظور پشتین کو جم کر گھنٹوں اظہار خیال کا موقع دیا۔ وہ میجر جنرل آصف غفور کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کا مذاق بھی اُڑاتے رہے۔ جنرل آصف غفور نے پی ٹی ایم کی قیادت سے جو سوالات پوچھے پاکستان کے ایک کم علم اور کج فہم شخص کو ان کی حقیقت کا پتا ہے نہ وہ اس کا جواب رکھتے ہیں۔ یہ اشاروں زبان ہوتی ہے جسے فریقین ہی سمجھ سکتے ہیں۔ جلد یا بدیر پوچھے گئے سوالوں کا جواب بھی پوچھنے والوں کو خود ہی دینا ہوگا۔
ملک کے ماجھے گامے کو کیا خبر قندھار وکابل میں کیا ہوتا ہے اور کون کس کو کیوں روپوں کی تھیلیاں دیتا ہے؟۔ ماجھے گامے کی یہ اوقات بھی نہیں کہ وہ ریاست کے کسی نمائندے کی کرسی تک پہنچ کر حالات کو دوربین سے دیکھے۔ قبائلی علاقوں کے عوام کی مشکلات اور مسائل سے کون انکار کر سکتا ہے اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ فوجی آپریشن کسی سونامی سے کم نہیں ہوتا۔ پھر ایک ایسے علاقے میں جہاں کبھی فوجی موجودگی کا تصور ہی نہیں رہا فوجی آپریشن تک نوبت پہنچ جانا لوگوں کی سماجی سیاسیات سمیت ان کی نفسیات اور مزاج پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کی سیاست اور مزاج پر گہری نظر رکھنے والے لوگ یہاں فوجی آپریشنوں کی مخالفت کر رہے تھے۔ اس وقت پرتعیش ٹی وی اسٹوڈیوز میں بیٹھے اینکر اور دانشور ریاست کی رٹ کے قیام کے مناد ومبلغ بن کر ان علاقوں پر چڑھائی کرنے کی حمایت کر رہے تھے۔ فوجی آپریشن سے پاکستان کی برسوں کی ہچکہچاہٹ کے پیچھے برمودہ تکون میں قدم رکھنے کا خوف تھا۔ اس خوف نے امریکا کے نمائندہ افپاک رچرڈ ہالبروک کی تو جان ہی لے لی تھی۔ جب امریکا کا ایک جنگ جو طبقہ براہ راست قبائلی علاقوں میں آپریشن پر مصر تھا تو ہالبروک اپنی سرکاری ذمے داریوں کے دوران علاقے کی تاریخ اور مزاج آشنا ہونے کی وجہ سے ان جنگ بازوں کی سدراہ بنے ہوئے تھے۔ علاقے کا فضائی جائزہ لینے کے بعد ان کے انٹرویو کا ایک جملہ بہت تاریخی تھا اور آنے والے زمانوں کے نصاب میں شامل کرنے کے قابل ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے توتے کی چونچ کی مانند ہیں ان میں داخل تو ہوا جا سکتا مگر واپسی کا راستہ نہیں۔ امریکا اور ریاست کی رٹ کے علمبردار این جی اوز مارکہ دانشوروں نے اس مسئلے کا مقامی حل نہیں نکلنے دیا۔ نیک محمد پرڈرون حملہ اس کا واضح ثبوت تھا۔
دنیا کے کسی بھی فوجی آپریشن کی طرح یہاں بھی آپریشن نے لوگوں کو لاتعداد مسائل کا شکار کیا۔ فوج کو عالمی اور خود اپنے ہم وطن دانشوروں نے رٹ قائم کرنے کے نام پر اس دلدل میں دھکیل ڈالا۔ فوج داخل تو ہوگئی مگر حالات کی دلدل سے نکلنے کا راستہ آسان نہ رہا۔ جوں جوں فوج کا قیام طویل ہوتا چلا گیا مسائل کا پیدا ہونا فطری تھا اور مسائل پیدا ہوتے چلے گئے۔ ان مسائل کو زبان دینے کے لیے پی ٹی ایم کا ظہور ہوا۔ ماضی میں سیاسیات کے ایک طالب علم کے طور ایک کالم میں پی ٹی ایم کی طرز سیاست اور اسلوب کے منطقی نتیجے پر بات کی تھی تو میرا تجربہ بہت سوں کی نسبت خوش گوار رہا کہ تنظیم کے کسی حامی نے کمال مہربانی سے ای میل میںکہا کہ ہم آپ کی بات کا جواب دے سکتے ہیں مگر ہماری تربیت آڑے آتی ہے۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ تین عشرے سے کچھ ہی کم عرصہ صحافت میں اس خطے کی سیاست پر لکھا بھی اور ہر مدوجزر پر نظر بھی رکھی۔ برسوں پہلے جب قبائلی علاقوں میں ہماری ریاست لڑائی کا سوچ ہی رہی تھی میں نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پاکستان ‘‘ کے نام سے ایک ریسرچ اسٹڈی میں جو اب کتابی شکل میں موجود ہے حالات واقعات کے تجزیے اور دلائل وبراہین سے ثابت کیا کہ یہ قطعی ہماری جنگ نہیں اور یہ جنگ ہمارے لیے نہ ختم ہونے والے مسائل پیدا کردے گی۔ اس تعلق اور تجربے کی بنیاد پر میں یہ بات لکھ رہا ہوں کہ پی ٹی ایم کا دکھ اور کرب اپنی جگہ ایک حقیقت اور ان کا احتجاج اپنے اندر ٹھوس جواز بھی رکھتا ہے مگر ہر ریاست کی ایک سرخ لائن ہوتی ہے۔ فوج ریاست کے تانے بانے کو برقرار رکھنے میں ایک اہم عنصر ہوتی ہے۔ جہاں یہ فورس کمزور ہوتی وہاں انارکی جنم لیتی ہے، علاقائی سالمیت اور وحدت بکھر جاتی ہے اور چھوٹے چھوٹے وار لارڈز معاشرے پر حکومت کرنے لگتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں یہی کھیل چل رہا ہے۔ عرب بہار کے نام پر مشرق وسطیٰ کو منظم حکومتوں، مشہور قیادتوں، واضح جغرافیوں سے محروم کرکے بے نام ونمود اور سرکٹوں کے حوالے کیا گیا۔
پی ٹی ایم کا اسلوب اور نعرے جس قدر تلخ ہیں اس کا منطقی نتیجہ اور اگلا مرحلہ ریاست کے ساتھ تصادم ہی نظر آتا ہے موجودہ قیادت خود کو تشدد سے جس قدر الگ رکھے مگر اس لہجے کا موجودہ انداز کئی نئے لوگوں اور گروہوں کو آگے لانے کا باعث بن سکتا ہے۔ مانا کہ پی ٹی ایم نے ابھی تک ایک گملا بھی نہیں توڑا نہ قانون کو عملی طور پر اپنے ہاتھ میں لیا مگر وہ اپنے اسلوب اور نعروں سے جو ذہن سازی کررہی ہے وہی ذہن طاقت پکڑ کر آخر کار اسے تصادم کی طرف لے جائے گا۔ خدانخواستہ تصادم ہوا تو بیرونی طاقتیں حالات کے خیمے میں سر دینے کی کوشش کریں گی اور یوں المیوں کی زمین پر المناک واقعات کی ایک اور زنجیر پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ فریقین ایک نقطہ اتصال یوں قائم کریں کہ
خلوص کا یہی تقاضا برائے امن واماں بدل دیں
تم اپنا انداز ِ فکر بدلو ہم اپنا طرزِ بیاں بدل دیں