اتفاق رائے سے ایک قرارداد منظور کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ماہ رمضان کے حوالے سے پاکستانی ٹی وی چینلز پر پیش ہونے والے پروگراموں میں شو بز کی دنیا سے تعلق رکھنے والے افراد کو شمولیت سے روکا جائے‘‘۔ پنجاب اسمبلی کی قرارداد کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ پورا ملک چاہے کتنی ہی غیر سنجیدگی سے چلایا جارہا ہو لیکن اس رمضان ٹی وی چینلز کی نشریات سنجیدہ ہوں گی۔ گزشتہ برسوں رمضان نشریات میں پروگراموں کی میزبانی وہ فنکار کرتے رہے جو سارا سال ایوننگ یا مارننگ شوز میں ٹھمکے لگاتے تھے، ناچ گانے کو ترقی اور عروج دیتے تھے لیکن رمضان شروع ہوتے ہی دوپٹے اور ٹو پیاں سنبھال مسلمانوں کو اسلام تعلیم کرنے لگتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ طالب علم تین طرح کے ہوتے ہیں۔ پڑھنے والے، نہ پڑھنے والے اور وہ جو کلاس میں یہ سوچ کر آتے ہیں کہ نہ خود پڑھنا ہے نہ دوسروں کو پڑھنے دینا ہے۔ کئی برسوں سے رمضان نشریات کا یہی حال تھا۔ نہ خود رمضان کا احترام کرنا ہے اور نہ دوسروں کو کرنے دینا ہے۔ تراویح کا وقت ہے لیکن ٹی وی پر کوئز پروگرام چل رہے ہیں۔ معمولی معمولی سوالوں پر قیمتی انعامات لٹائے جارہے ہیں۔ اس سہولت کے ساتھ کہ گھر بیٹھے لوگ بھی ان پروگراموں میں شرکت کر سکتے ہیں۔ ماہ مبارک میں نیکیاں لوٹنے کے بجائے روزے داروں کو موبائل اور بائیک لوٹنے میں لگادیا جاتا تھا۔ شاید ہی کوئی ایسا بہانہ اور تدبیر ہو جس کی اوٹ سے دین کا مذاق نہ اڑایا جاتا ہو۔ کہیں معروف عالم دین محترم (ڈاکٹر) عامر لیاقت صاحب دین کا درس دے رہے ہیں تو کہیں لائیو استخارہ ہورہا ہے۔ فون کال پر کسی بہن نے اپنا مسئلہ بتایا اگلے ہی لمحے اسٹوڈیو میں سناٹا چھا گیا۔ کیوں۔ ڈاڑھی منڈے عالم دین آنکھیں بند کیے استخارہ فرمارہے ہیں۔ اتنی دیر میں غلیل سے پرندہ شکار نہیں ہوتا جتنی دیر میں عالم دین صاحب سائل کا مسئلہ سمجھ کر استخارہ کرلیتے اور مسئلے کا حل بتادیتے۔
پہلے ایک ہی ٹی وی چینل ہوا کرتا تھا۔ پی ٹی وی۔ جہاں رمضان کے حوالے سے خصوصی نشریات نہیں ہوتی تھیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد جیسے جید عالم دین نے قرآن کی تفسیر بیان کردی، حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول مقبول سادگی، عاجزی اور فروتنی سے پڑھ دی گئی اور بس۔ لیکن تمام پروگراموں میں وہ احتیاط برتی جاتی تھی کہ پورے مہینے رمضان کی کیفیات غالب رہتی تھیں۔ 2002 میں جیو آغاز ہوا۔ جیو ہی سے عالم آن لائن
کے میزبان عامر لیاقت نے رمضان نشریات کا آغاز کیا۔ جس نے رمضان نشریات کی شکل وصورت ہی بدل کر کھ دی۔ افطار اور سحری کے اوقات میں وسیع وعریض اسٹوڈیو، خوبصورتی سے سجائے گئے اسٹیج، لاکھوں روپے مالیت کے انعامات۔ مذہبی شخصیات اور شوبز کے ستاروں سے رمضان کی محفلیں سجنے لگیں، گیم شوز، نیلام گھر اور نہ جانے کیسے کیسے سرکس لگنے لگے۔ عجیب وغریب حرکات۔ چھوٹے چھوٹے جوابات پر موٹر سائیکلیں، اے سی، موبائل فونز اور گاڑیاں۔ سب کچھ غیر سنجیدہ ماحول میں، مضحکہ خیز انداز میں۔ ایسے ایسے دینی اسکالرز ان پروگراموں میں موجود ہوتے پہلے جنہیں کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔ ان پروگراموں کی خوبی یہ تھی کہ سب کچھ اسپانسرڈ ہوتا تھا۔ اینکر کے لباس سے لے کر مولوی صاحبان کی دعائوں تک سب کچھ اسپانسرڈ۔ سحری اور افطار کی اذانیں بھی اسپانسرڈ اور دعائیں بھی اسپانسرڈ۔ رمضان المبارک چینل مالکان کے لیے دولت آفرینی کا ذریعہ بن جاتے۔
پنجاب اسمبلی کی قرار داد کے بعد امید ہے کہ اس رمضان ٹی وی نشریات کے رنگ جدا ہوں گے۔ ایک طرف ٹی وی چینلز پر دینی، علمی، فکری، ادبی، تعلیمی اور معلوماتی پروگرام نشر ہورہے ہوںگے تو دوسری طرف وزیراعظم عمران خان اپنی تقریروں میں قوم کو دینی نکات سمجھا رہے ہوںگے۔ خوش قسمتی سے اس رمضان قوم کو ایک ایسے وزیراعظم دستیاب ہیں قرآن جن کے مطالعے میں رہتا ہے۔ اپنی تقاریر اور ٹویٹس میں جو قرآن کا حوالہ دیتے رہتے ہیں۔ تین مئی کو عالمی یوم صحافت کے موقع پر ان صحافیوں کے بارے میں جو جھوٹی خبریں پھیلاتے رہتے ہیں انہوں نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 42ٹویٹ کی۔ ’’سچ کو جھوٹ میں نہ ملائو اور نہ ہی اس سچ کو چھپائو جو تم جانتے ہو‘‘۔ موقع محل کی مناسبت سے وزیر اعظم عمران خان جس طرح اللہ کی آخری کتاب کا حوالہ دیتے ہیں وہ بہت متاثر کن ہے۔ یقینا وہ زندگی کے ہر شعبے میں قرآن سے رہنمائی لیتے ہوں گے۔ آیت نمبر 42کا انہوں نے ذکر کیا ہے تو یقینی طور پر سورہ بقرہ کی آیت نمبر 275 تا 279 کا مطالعہ بھی انہوں نے ضرور کیا ہوگا جن میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ سود کے باب میں فرماتے ہیں ’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگل بنادیا ہو۔ یہ اس لیے ہوگا کہ انہوں نے کہا تھا کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہوتی ہے حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اگر تم واقعی مومن ہو تو سود کا جو حصہ بھی (کسی کے) ذمے باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ پھر بھی اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو‘‘۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے شراب پینے، سور کھانے اور زنا کرنے کے لیے وہ الفاظ ادا نہیں فرمائے جو سود کے بارے میں اعلان کیے ہیں۔ ’’اللہ اور اس کے رسول سے اعلان جنگ ‘‘۔ وزیراعظم نے جو نئی معاشی ٹیم تشکیل دی ہے توقع ہے کہ سود کے بارے میں قرآن کی یہ روشن آیات انہوں نے اس ٹیم کے آگے بیان کردی ہوں گی اور آئی ایم ایف ہو یا کوئی اور عالمی سود خور ادارہ وزیر اعظم نے ان سے سود لینے سے روک دیا ہوگا۔ کون ہے جو بروز قیامت اللہ کے سامنے اس شخص کی طرح کھڑا ہونا پسند کرے جسے شیطان نے چھوکر پاگل کردیا ہو۔
کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم جاری ہیں۔ سات لاکھ سے زائد بھارتی فوجی درندے مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں۔ ایک لاکھ کے قریب مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ ہزاروں نوجوان بینائی سے محروم ہوچکے ہیں، ان گنت کشمیری بھارتی عقوبت خانوں میں گل سڑ رہے ہیں، نہ جانے کتنی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں نے بیوگی کی سیاہ چادر اوڑھ لی ہے۔ روزانہ کشمیری شہداء کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر زمین کے سپرد کیا جارہا ہے۔ آہ وبکا کا ایک طوفان ہے جو سرحد پار اپنی مسلمان سپاہ کو آواز دے رہا ہے۔ وہ مسلمان سپاہ جو دنیا کی طاقتور ترین افواج میں شمار ہوتی ہے، جو ایٹمی اسلحہ سے لیس ہے، جو سرحدی خلاف ورزی پر اگلے ہی دن دو بھارتی طیاروں کو مار گراتی ہے، ایک پائلٹ کو گرفتار کرلیتی ہے۔ وہ سپاہ جس کا نشان تقویٰ اور جہاد ہے وہ یقینا اس حکم ربی سے آگاہ ہوگی کہ ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی مدگار اور حامی پیدا کردے‘‘۔ (سورۃ النساء: 75) وزیراعظم عمران خان نے انتہائی پر سوز آواز میں یہ قرآنی آیات جنرل باجوہ کے سامنے تلاوت کی ہوں گی اور انہیں آگاہ کیا ہوگا کہ قرآن ان سے کس طرزعمل کا تقاضا کررہا ہے۔
اسلام کا وصف حیا ہے۔ سورہ انعام کی آیت نمبر 151میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’…فحاشی کے قریب بھی نہ جائو خواہ یہ کھلی ہوں یا چھپی ہوں…‘‘۔ بے حیائی فحاشی اور برہنگی شیطان کے موثر ترین ہتھیار ہیں۔ یہی وہ راہ ہے سب سے زیادہ جہاں سے شیطان حملہ آور ہے۔ پاکستان میں آج صورتحال یہ ہے کہ فحاشی اور عریانی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ میڈیا پر ایسے ڈرامے اور اشتہارات چلائے جارہے ہیں کہ آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ فحاشی پھیلانے والوں کو قومی تمغوں سے نوازا جارہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان چاہیں تو پنجاب اسمبلی کی قرارداد پورے سال پر محیط ہوسکتی ہے۔ وہ قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں، قرآن کو بیان کرتے ہیں اور پھر پاکستان کو مدینے جیسی ریاست بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔ قرآن مخالفین کو زچ کرنے کے لیے نہیں اتارا گیا ہے بلکہ اپنے ایک ایک حکم کا نفاذ چاہتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ؟۔ تو پھر؟۔۔ کیا عرض کیا جائے؟ اللہ دلوں کے حال بہتر جانتا ہے۔