غوزیں اُڑانے والے

192

پاکستان کا قیام اس یقین کے ساتھ وجود میں آیا تھا کہ عدلیہ عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو اپنے تحفظات پر فوقیت دینے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑے گی مگر جب سے نیا پاکستان معرض وجود میں آیا ہے، عدلیہ بھی نئی نکور ہوگئی ہے۔ غوزیں اُڑا کر ہاتھوں کے توتے اُڑانے کو عدل پروری سمجھ لیا جائے تو دقیقہ شناسی بے معنی اور بے وقعت قرار پاتی ہے۔ کہتے ہیں حکومت اور عدلیہ ایک ہی صف میں کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں، حکومت کے ’’خیرخواہ‘‘ ہم نے خیر خواہ کا لفظ پختون زبان سے مستعار لیا ہے کیوں کہ اردو میں اس کا مہذب اور شائستہ ترجمہ ممکن نہیں۔ ہاں تو… ہم کہہ رہے تھے کہ حکومت کے خیرخواہ یک زبان ہو کر چلا رہے ہیں کہ تبدیلی آئی رے! تبدیلی آئی رے! واقعی! تبدیلی آگئی ہے۔ کندھے عوام کے چھل رہے ہیں اور اذیت پسند حکمران عوام کی چیخیں سُن کر لطف اندوز ہورہے ہیں مگر اس سے بھی زیادہ اذیت ناک حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ حکومت کی سہولت کار بنی ہوئی ہے۔ یہ کیسی المناک صورت حال ہے کہ عدالت عظمیٰ نے موبائل فون کارڈ پر تمام ٹیکس بحال کردیے جنہوں نے عوام کو بے حال کردیا تھا۔ سابق چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے موبائل فون کارڈ پر جبری کٹوتی کو روک دیا تھا کیوں کہ دنیا میں ایسی بھتا خوری کہیں نہیں ہوتی حتیٰ کہ بنگلادیش میں بھی ریزی لوڈ کرانے پر حکومت کوئی ٹیکس نہیں لیتی، البتہ وہاں سو ٹکے کا بیلنس لینے پر دکاندار کو دو ٹکے دیے جاتے ہیں۔
عزت مآب چیف جسٹس پاکستان کا یہ فرمان توجہ طلب ہے کہ موبائل فون کارڈ پر تمام ٹیکس بحال ہوگئے ہیں اب ہوا پر ٹیکس لگنا باقی ہے گویا لاشعوری طور پر حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ سانس لینے پر بھی ٹیکس لگ سکتا ہے۔ غالباً چیف صاحب یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ سانس لینے سے فضا آلودہ ہوسکتی ہے جو بیماریاں پھیلانے کا سبب بنتی ہے اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ سقوط ڈھاکا کی ایک بڑی وجہ جبری ٹیکس بھی تھا۔ 1971ء کے سیلاب کی وجہ سے جو تباہی پھیلی تھی اسے سمیٹنے کے لیے سیلاب ٹیکس لگایا گیا تھا اور یہ ٹیکس مشرقی پاکستان کے بنگلادیش بننے کے بعد بھی کئی عشروں تک لیا جاتا رہا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ سقوط ڈھاکا کی بنیادی وجہ حکمرانوں کا غیر ذمے دارانہ رویہ تھا اور اب عدلیہ بھی اسی نہج پر چل پڑی ہے۔ خدا خیر کرے! یہ کیسا المیہ ہے کہ عدلیہ عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے حکمرانوں کی تجوریاں بھرنے میں سہولت کاری کررہی ہے اور یہ نوید سنا رہی ہے بلکہ یقین دلا رہی ہے کہ عدالت ٹیکس کے معاملات میں مداخلت کی مرتکب نہیں ہوگی۔ گویا عدلیہ حکومت کو عوام کا خون نچوڑنے کی کھلی چھوٹ دے رہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکمرانوں کے چہروں کی چمک دمک بحال رکھنے کے لیے موبائل فون کارڈ پر ٹیکس لینے کا اختیار بحال کرنا کیوں ضروری سمجھا گیا؟ اور مفاد عامہ کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟ حالاں کہ عام آدمی بھی جانتا ہے کہ جبری ٹیکس ایک ظالمانہ فعل ہے ایک ایسا شرمناک اقدام ہے جو قومی غیرت اور دینی حمیت کے منافی ہے۔