روزے کے چند ضروری مسائل

2115

(1) بلڈ ٹیسٹ کے لیے اپنا خون نکلوانے یا کسی شدید ضرورت مند مریض کو خون کا عطیہ دینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، البتہ اگر خون دینے سے اتنی جسمانی کمزوری لاحق ہونے کا اندیشہ ہو کہ روزہ رکھنے کے قابل نہ رہے، تو روزے کی حالت میں اس سے اجتناب کرے۔
(2) کان میں دوا یا تیل ٹپکانے یا دانستہ پانی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، سوائے اس کے کہ خدانخواستہ کسی شخص کے کان کا پردہ پھٹا ہوا ہو اور اس سے مواد رِس کر دماغ تک پہنچ جاتا ہو، تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔
(3) ہماری تحقیق کے مطابق آنکھ میں دوا ڈالنے یا کسی بھی قسم کا انجکشن لگانے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے، بعض علماء کے نزدیک اِس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ جس مسئلے کے بارے میں قرآن وحدیث میں صریح حکم نہ ہو، وہ مسئلہ اجتہادی کہلاتا ہے، اس میں لوگوں کو جس عالم پر اعتماد ہو، اُس کے فتوے پر عمل کریں، ڈاکٹر وھبہ الزوحیلی لکھتے ہیں: ’’انجکشن پٹھوں میں جلد کے اندر (Inter Muscular) لگانا ہو یا رگوں میں (Inter Vein) لگانا ہو، بہتر یہ ہے کہ روزے کی حالت میں نہ لگائے اور افطار کے وقت تک انتظار کرے، اگر رگوں میں خون چڑھائے گا، تو روزہ فاسد ہوجائے گا، (فقہ الاسلامی وادِلّتہ)‘‘۔
(4) روزے کی حالت میں قَے آنے کی فقہائے کرام نے 24ممکنہ صورتیں بیان کی ہیں، ان میں سے صرف دو صورتوں میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے: (الف) بے اختیار منہ بھر کر قَے آئے اور اُس میں سے کچھ مواد واپس نگل لے، (ب) طبعی مجبوری کے تحت جان بوجھ کر قَے کرے، جسے عربی میں ’’اِسْتِقَاء‘‘ کہتے ہیں، اگر ایسی قَے منہ بھر کر آجائے تو خواہ واپس حلق میں کچھ بھی نہ نگلے، روزہ ٹوٹ جائے گا، (ج) باقی صورتوں میں روزہ نہیں ٹوٹتا۔
(5) نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبانی نیت ضروری نہیں ہے، مستحب ہے۔ اگر رات ہی سے نیت کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اِس صورت میں ان الفاظ کے ساتھ نیت کرے: ’’میں اللہ تعالیٰ کے لیے کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں‘‘۔ صبح صادق یعنی سَحری کے وقت یا سَحری کے بعد کرنا چاہے، تو ان الفاظ کے ساتھ نیت کرے: ’’میں اللہ تعالیٰ کے لیے آج کے روزے کی نیت کرتا ہوں‘‘۔ اگر نصف النہار شرعی سے پہلے نیت کرے تو یہ کہے: ’’میں آج صبح سے روزے سے ہوں‘‘۔ اگر دل میں نیت ہے اور زبان سے روزے کی نیت کے الفاظ ادا نہیں کیے، تو اس سے روزے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اگر رات سے روزے کی نیت کی ہے تو تب بھی سحری کرسکتا ہے۔
(6) سَحری سے پہلے غسل جنابت واجب ہوچکا تھا مگر سَحری ختم ہونے سے پہلے غسل نہ کرسکا یا دن میں روزے کے دوران نیند کی حالت میں جنبی ہوجائے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا اور نہ ہی اِس سے اجر میں کمی واقع ہوتی ہے، البتہ واجب غسل کو اتنی دیر تک مؤخر کرنا کہ ایک فرض نماز کا وقت گزر جائے، مکروہ تحریمی ہے، کیوںکہ اِس سے نماز قضا ہوجائے گی۔
(7) وضو کے دوران مسواک کرنا عام دنوں میں بھی سنّت ہے اور رمضان المبارک کے دوران روزے کی حالت میں بھی سنّت ہے، خواہ عصر کے وقت یا عصر کے بعد کرے، سیدنا عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں: ’’میں نے بہت مرتبہ نبی ؐ کو روزے میں مسواک کرتے ہوئے دیکھا، (سُنن ترمذی)‘‘۔ روزے کی حالت میں فقہائے احناف نے مسواک کی اجازت دی ہے، خواہ وہ خشک ہو یا تریا اس میں کوئی ذائقہ محسوس ہوتا ہو۔ مسواک کی تری یا اس کی لکڑی کا کوئی ریزہ یا ریشہ حلق میں چلا گیا تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔ منجن، ٹوتھ پاؤڈر اور پیسٹ اس سے مختلف ہے کہ اس میں ذائقہ بہت محسوس ہوتا ہے، نہ اس پر مسواک کا اطلاق ہوتا ہے اور نہ مسواک کی سنت ادا کرنے کے لیے اس کی ضرورت ہے، حتی الامکان روزے کی حالت میں اس کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے، کیوںکہ اگر اس کے ذرّات حلق میں واضح طور پر محسوس ہوں اور اس کا قوی اندیشہ بھی ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں روزہ فاسد ہوجائے گا، الغرض منجن یا ٹوتھ پاؤڈر یا پیسٹ سے ممانعت کا مشورہ احتیاط کی بنا پر ہے کہ بعض اوقات غیرارادی طور پر اس کے ذرات حلق میں چلے جانے کا امکان رہتا ہے۔
(8) روزے کی حالت میں خوشبو استعمال کرسکتے ہیں، ناخن کاٹ سکتے ہیں، بالوں کو تیل لگا سکتے ہیں، اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
(9) دَمَہ یا ضیق النفس کا مریض (Asthmamatic) جو آلۂ تَنَفُّس (Inhaler) کے استعمال کے بغیر دن نہیں گزار سکتا، وہ معذور ہے اور اس کو اس بیماری کی بنا پر روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے، اگر یہ مرض دائمی ہے، تو وہ فدیہ اداکرے۔ اگر روزہ رکھ لیا ہے اور مرض کی شدّت کی بنا پر انہیلر استعمال کیا، تو روزہ ٹوٹ جائے گا، روزہ رکھنے کی استطاعت ہوتو بعد میں قضا کرے، ورنہ فدیہ اداکرے۔ انہیلر میں اگرچہ گیس ہوتی ہے اور ہوا حلق میں جاتی بھی رہتی ہے اور خارج بھی ہوتی ہے، آکسیجن پر تو زندگی کا مدار ہے، لیکن انہیلر میں آکسیجن کے ساتھ ایک کیمیکل بھی ہوتا ہے، جو حلق کے راستے معدے تک پہنچ سکتا ہے، کیوںکہ اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
(10) انتہائی درجے کے ذیابیطس کے مریض (Diabetic) یا ایسے تمام اَمراض میں مبتلا مریض جن کو خوفِ خدا رکھنے والا کوئی دین دار ماہر ڈاکٹر مشورہ دے کہ وقفے وقفے سے دوا استعمال کرو یا پانی پیو یا خوراک استعمال کرو، ورنہ مرض بے قابو ہوجائے گا یا کسی عضو یا جان کے تلف ہونے کا اندیشہ ہے، تو ایسے تمام لوگ شرعی معذور ہیں، اُنہیں شریعت نے رخصت دی ہے کہ روزہ نہ رکھیں اور فدیہ اداکریں، ایسے لوگ ’’دائمی مریض‘‘ کہلاتے ہیں۔ لیکن اگر فدیہ ادا کردیا ہے اور بعد میں اللہ نے اپنے فضل وکرم سے اُس بیماری سے صحت عطاکردی، تو قضا بھی کرے، فدیہ میں دیے ہوئے مال کا ثواب اُسے مل جائے گا۔
(11) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کا (دووقت کا) کھانا مقرر کیا ہے، ہر روزے دار اپنے معیار اور مالی استطاعت کے مطابق فدیہ اداکرے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمہ: ’’سو جو شخص خوش دلی کے ساتھ فدیے کی مُقرر ہ مقدار سے زیادہ اداکرے، تو یہ اُس کے لیے بہتر ہے، (البقرہ: 184)‘‘۔
(12) اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے دوران مسافر یا عارضی مریض کو عذر کی بنا پر روزہ چھوڑنے کی رخصت دی ہے، لیکن یہ بھی فرمایا: ترجمہ: ’’اور اگر تم روزہ رکھ لو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو، (البقرہ: 184)‘‘، احادیثِ مبارکہ میں ہے:
(۱) ’’سیدنا حمزہ بن عمر واسلمی نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: میں سفر میں روزہ رکھتا ہوں اور وہ کثرت سے روزہ رکھنے والے تھے، آپ ؐ نے فرمایا: ’’تمہیں اختیار ہے چاہو تو روزہ رکھو اور چاہو تو چھوڑ دو، (بخاری)‘‘۔ (۲) انس بن مالک بیان کرتے ہیں: ہم (سفرِ جہاد میں) رسول اللہ ؐ کے ساتھ سفر کررہے تھے، ہم میں سے بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے چھوڑ دیا، دونوں نے ایک دوسرے کو ملامت نہیں کیا، (بخاری)‘‘۔ مسافر یا عارضی مریض فدیہ دے کر روزے کی فرضیت سے عہدہ بر آ نہیں ہوں گے، بلکہ اُنہیں رمضان المبارک کے بعد صحت یاب ہونے پر عذر کی بنا پر چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنی ہوگی۔
(13)حاملہ عورت یا دودھ پلانے والی عورت اپنی یا بچے کی صحت کے بگڑنے سے بچنے کے لیے رمضان کا روزہ چھوڑ سکتی ہے، لیکن اِس کی تلافی فدیے سے نہیں ہوگی بلکہ بعد میں قضاروزے رکھنے ہوں گے۔ اِسی طرح ایامِ مخصوص (Menses) کے دوران عورت روزہ نہیں رکھ سکتی، ایام ختم ہونے پرغُسلِ واجب کرکے پاک ہوجائے اور روزے رکھے، جتنے دنوں کے روزے چھوٹ گئے ہیں، اُن کی تلافی فدیے سے نہیں ہوگی بلکہ بعد میں اتنے دنوں کے قضا روزے رکھنے ہوں گے۔ (15) نوجوان اور جوان عمر حضرات روزے کے دوران بیوی کے ساتھ بوس وکنار سے اجتناب کریں، اگرچہ یہ جائز ہے، لیکن شَہوت کے غلبے کے پیش نظر روزے کے فاسد ہونے کا خدشہ رہتاہے، اس لیے احتیاط کرنا بہتر ہے۔
(14) گزشتہ رمضان کے روزوں کی قضا اس کے ذمے باقی ہے، تو اگلا رمضان آنے سے پہلے اس کی قضا رکھے۔تمام فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ماہِ رمضان کے روزوں کی قضا علی الفور واجب نہیں ہے، لیکن بلا عذر اتنی تاخیر کرنا گناہ ہے کہ اگلا ماہِ رمضان شروع ہوجائے۔
(جاری ہے)
ترجمہ: ’’سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ؐ نے فرمایا: جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس پر گزشتہ رمضان کے روزوں کی قضا باقی ہے، اس کے اس رمضان کے روزے قبول نہیں ہوں گے اور جس نے نفلی روزے رکھے، جبکہ اس پر رمضان کے روزوں کی قضا باقی تھی، اس کے نفلی روزے قبول نہیں ہوں گے حتّٰی کہ وہ قضا روزے رکھ لے، (مسند احمد)‘‘۔
(15) رمضان المبارک کے قضا روزوں کا کسی وقفے کے بغیر لگاتار رکھنا ضروری نہیں ہے، بیچ میں وقفہ بھی کرسکتے ہیں۔ نیز یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ گرمی کے روزوں کی قضا گرمی کے دنوں میں رکھی جائے اور نہ یہ ضروری ہے کہ سردیوں میں قضاشدہ روزوں کی قضا سردی کے موسم میں رکھی جائے، اس میں شریعت نے وسعت اور آسانی رکھی ہے، سال کے دوران اپنی سہولت کے مطابق قضا روزے رکھ سکتے ہیں۔
(16) جس نے بشری کوتاہی کی بنا پر روزہ نہ رکھا یا رکھنے کے بعد عذر کی بنا پر توڑ دیا، اس پر صرف قضا لازم ہے، البتہ جس نے روزہ رکھ کر کسی عذر کے بغیر جان بوجھ کر توڑ دیا تو اس پر کفارہ لازم ہے، یہ ساٹھ روزے مسلسل اور ایک قضا کا روزہ رکھنا ہے۔
(17) غیبت کرنا، جھوٹ بولنا، چغلی کھانا، کسی پر بہتان لگانا، کسی کی عیب جوئی کرنا، لوگوں کو ایذا پہنچانا، بیہودہ یا جنسی تَلذّذ کی باتیں کرنا عام حالات میں بھی منع ہیں اور روزے کی حالت میں ان کی ممانعت وحُرمت اور زیادہ ہوجاتی ہے۔ اِن باتوں سے فقہی اعتبار سے تو روزہ فاسد ہونے کا حکم نہیں لگایا جاتا، لیکن روزہ مکروہ ہوجاتا ہے اور روزہ دار روزے کے کامل اجر سے محروم ہوجاتا ہے۔
(18) اس سال محکمۂ موسمیات نے ماہِ رمضان میں شدید گرمی کی پیش گوئی کی ہے اور اسے ’’Heat Stroke‘‘ یا ’’Heat Wave‘‘ کا نام دیا ہے، بہت زیادہ پسینہ نکلنے کی وجہ سے انسانی جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی واقع ہوجاتی ہے، جسے طبی زبان میں Dehideration کہتے ہیں۔ ہماری رائے میں ایسے حالات میں جب کسی شخص کے لیے بیماری کے خطرناک بن جانے یا روزے دار کی جان تلف ہونے کا ظَنِّ غالب ہوجائے تو روزہ توڑنے یا چھوڑنے کی شرعی رخصت پر عمل واجب سمجھا جائے، کیوںکہ اس کی تائید میں احادیثِ مبارَکہ، ائمۂ مجتہدین اور فقہائے امت کے اقوال موجود ہیں، ایسی صورت میں روزہ توڑنے پر صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ لازم نہیں ہوگا، اس حوالے سے چند احادیث پیشِ خدمت ہیں:
(۱) سیدنا جابربن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اللہ نے تمہارے لیے جو رخصت دی ہے، اُس رخصت پر عمل کرنا تم پر واجب ہے، (صحیح مسلم)‘‘۔
(۲) سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی رخصت کو قبول نہیں کیا، اُس کو میدانِ عرفات کے پہاڑوں کے برابر گناہ ہوگا، (مسند احمد)‘‘۔
(۳) سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی معصیت کو ناپسند فرماتا ہے، اسی طرح اپنی دی ہوئی رخصت پر عمل کرنے کو پسند فرماتا ہے، (مسند احمد)‘‘۔
علامہ ابن عابدین شامیؒ تنویر الابصار مع الدرالمختار کی شرح میں لکھتے ہیں:
ترجمہ: ’’اگر روزہ رکھنے کی صورت میں ہلاکت کا اندیشہ ہو، تو روزہ توڑنا واجب ہے، (حاشیہ ابن عابدین شامی)‘‘۔
علامہ علا الدین ابوبکر کاسانی حنفی لکھتے ہیں:
ترجمہ: ’’امام ابوحنیفہ سے روایت ہے: اور (عذر کی بنا پر) روزہ توڑنے کی مُطلق اباحت بلکہ وجوب اُس صورت میں ہے کہ روزے دار کی ہلاکت کا اندیشہ ہو، کیوںکہ اس میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے، اللہ کے حق کو قائم رکھنے کے لیے نہیں جو واجب ہے، اس حالت میں روزے کا وجوب باقی نہیں رہتا اور یہ حرام ہے، تو ایسی صورت میں روزہ توڑنا مباح بلکہ واجب ہوگا، (بدائع الصنائع)‘‘۔
علامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابوبکر المرغینانی حنفی لکھتے ہیں:
ترجمہ: ’’اور ہم کہتے ہیں: بیماری کی زیادتی اور اس کا لمبا ہونا کبھی ہلاکت کا سبب بنتا ہے، تواس سے بچنا واجب ہے، (ہدایہٰ)‘‘۔
ڈاکٹر وھبہ الزحیلی لکھتے ہیں:
ترجمہ: ’’اور اگر روزے کے سبب ہلاکت کا غالب گمان ہو یا شدید تکلیف جیسے کسی حِس کے معطل ہونے کا گمان ہو تو اس صورت میں روزہ توڑنا واجب ہے‘‘۔ مزید لکھتے ہیں: ’’بیماری کی حالت میں روزہ توڑنے کے بارے میں حنفیہ شافعیہ کا قول ہے: یہ مباح ہے، حنابلہ کے نزدیک بیماری کی حالت میں روزہ رکھنا مکر وہ ہے اور مالکیہ کے نزدیک اگر بیماری یا ضعف کی وجہ سے ہلاکت کا اندیشہ ہو تو روزہ توڑنا واجب ہے، (الفقہ الاسلامی وادلتہ)‘‘۔