روزے کے چند ضروری مسائل

582

 

 

ترجمہ: ’’سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ؐ نے فرمایا: جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس پر گزشتہ رمضان کے روزوں کی قضا باقی ہے، اس کے اس رمضان کے روزے قبول نہیں ہوں گے اور جس نے نفلی روزے رکھے، جبکہ اس پر رمضان کے روزوں کی قضا باقی تھی، اس کے نفلی روزے قبول نہیں ہوں گے حتّٰی کہ وہ قضا روزے رکھ لے، (مسند احمد)‘‘۔
(15) رمضان المبارک کے قضا روزوں کا کسی وقفے کے بغیر لگاتار رکھنا ضروری نہیں ہے، بیچ میں وقفہ بھی کرسکتے ہیں۔ نیز یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ گرمی کے روزوں کی قضا گرمی کے دنوں میں رکھی جائے اور نہ یہ ضروری ہے کہ سردیوں میں قضاشدہ روزوں کی قضا سردی کے موسم میں رکھی جائے، اس میں شریعت نے وسعت اور آسانی رکھی ہے، سال کے دوران اپنی سہولت کے مطابق قضا روزے رکھ سکتے ہیں۔
(16) جس نے بشری کوتاہی کی بنا پر روزہ نہ رکھا یا رکھنے کے بعد عذر کی بنا پر توڑ دیا، اس پر صرف قضا لازم ہے، البتہ جس نے روزہ رکھ کر کسی عذر کے بغیر جان بوجھ کر توڑ دیا تو اس پر کفارہ لازم ہے، یہ ساٹھ روزے مسلسل اور ایک قضا کا روزہ رکھنا ہے۔
(17) غیبت کرنا، جھوٹ بولنا، چغلی کھانا، کسی پر بہتان لگانا، کسی کی عیب جوئی کرنا، لوگوں کو ایذا پہنچانا، بیہودہ یا جنسی تَلذّذ کی باتیں کرنا عام حالات میں بھی منع ہیں اور روزے کی حالت میں ان کی ممانعت وحُرمت اور زیادہ ہوجاتی ہے۔ اِن باتوں سے فقہی اعتبار سے تو روزہ فاسد ہونے کا حکم نہیں لگایا جاتا، لیکن روزہ مکروہ ہوجاتا ہے اور روزہ دار روزے کے کامل اجر سے محروم ہوجاتا ہے۔
(18) اس سال محکمۂ موسمیات نے ماہِ رمضان میں شدید گرمی کی پیش گوئی کی ہے اور اسے ’’Heat Stroke‘‘ یا ’’Heat Wave‘‘ کا نام دیا ہے، بہت زیادہ پسینہ نکلنے کی وجہ سے انسانی جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی واقع ہوجاتی ہے، جسے طبی زبان میں Dehideration کہتے ہیں۔ ہماری رائے میں ایسے حالات میں جب کسی شخص کے لیے بیماری کے خطرناک بن جانے یا روزے دار کی جان تلف ہونے کا ظَنِّ غالب ہوجائے تو روزہ توڑنے یا چھوڑنے کی شرعی رخصت پر عمل واجب سمجھا جائے، کیوںکہ اس کی تائید میں احادیثِ مبارَکہ، ائمۂ مجتہدین اور فقہائے امت کے اقوال موجود ہیں، ایسی صورت میں روزہ توڑنے پر صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ لازم نہیں ہوگا، اس حوالے سے چند احادیث پیشِ خدمت ہیں:
(۱) سیدنا جابربن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اللہ نے تمہارے لیے جو رخصت دی ہے، اُس رخصت پر عمل کرنا تم پر واجب ہے، (صحیح مسلم)‘‘۔
(۲) سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی رخصت کو قبول نہیں کیا، اُس کو میدانِ عرفات کے پہاڑوں کے برابر گناہ ہوگا، (مسند احمد)‘‘۔
(۳) سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی معصیت کو ناپسند فرماتا ہے، اسی طرح اپنی دی ہوئی رخصت پر عمل کرنے کو پسند فرماتا ہے، (مسند احمد)‘‘۔
علامہ ابن عابدین شامیؒ تنویر الابصار مع الدرالمختار کی شرح میں لکھتے ہیں:
ترجمہ: ’’اگر روزہ رکھنے کی صورت میں ہلاکت کا اندیشہ ہو، تو روزہ توڑنا واجب ہے، (حاشیہ ابن عابدین شامی)‘‘۔
علامہ علا الدین ابوبکر کاسانی حنفی لکھتے ہیں:
ترجمہ: ’’امام ابوحنیفہ سے روایت ہے: اور (عذر کی بنا پر) روزہ توڑنے کی مُطلق اباحت بلکہ وجوب اُس صورت میں ہے کہ روزے دار کی ہلاکت کا اندیشہ ہو، کیوںکہ اس میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے، اللہ کے حق کو قائم رکھنے کے لیے نہیں جو واجب ہے، اس حالت میں روزے کا وجوب باقی نہیں رہتا اور یہ حرام ہے، تو ایسی صورت میں روزہ توڑنا مباح بلکہ واجب ہوگا، (بدائع الصنائع)‘‘۔
علامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابوبکر المرغینانی حنفی لکھتے ہیں:
ترجمہ: ’’اور ہم کہتے ہیں: بیماری کی زیادتی اور اس کا لمبا ہونا کبھی ہلاکت کا سبب بنتا ہے، تواس سے بچنا واجب ہے، (ہدایہٰ)‘‘۔
ڈاکٹر وھبہ الزحیلی لکھتے ہیں:
ترجمہ: ’’اور اگر روزے کے سبب ہلاکت کا غالب گمان ہو یا شدید تکلیف جیسے کسی حِس کے معطل ہونے کا گمان ہو تو اس صورت میں روزہ توڑنا واجب ہے‘‘۔ مزید لکھتے ہیں: ’’بیماری کی حالت میں روزہ توڑنے کے بارے میں حنفیہ شافعیہ کا قول ہے: یہ مباح ہے، حنابلہ کے نزدیک بیماری کی حالت میں روزہ رکھنا مکر وہ ہے اور مالکیہ کے نزدیک اگر بیماری یا ضعف کی وجہ سے ہلاکت کا اندیشہ ہو تو روزہ توڑنا واجب ہے، (الفقہ الاسلامی وادلتہ)‘‘۔