قومی معیشت اور آئی ایم ایف کے حکیم

230

 

 

آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کی ایک اور قسط کی خاطر مذاکرات کا فیصلہ کن دور جاری ہے۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط عام پاکستانی کی چیخیں نکال رہی ہیں اور آنے والے دنوں میں اس چیخ وپکار میں اضافہ ہونے جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نمائندے اب ملکی معیشت کو براہ راست کنٹرول کرنے قافلہ در قافلہ پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ سب بقول وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور فردوس عاشق اعوان پاکستان کے بیٹے ہیں کم تنخواہوں پر ملک کے معاشی مسائل کو حل کرنے واردا ہوئے ہیں۔ ورلڈ بینک کے چنیدہ اور پسندیدہ حفیظ شیخ کا بطور مشیر خزانہ تقرر اس عمل کا نقطہ آغاز بنا۔ اب آئی ایم ایف کے ملازم رضا باقر اسٹیٹ بینک کے سربراہ بن گئے۔ فرزندان وطن کی یہ ’’مہمان ٹیم‘‘ اپنے ساتھ معاونین کا لائو لشکر لائے گی۔ اس کے بعد آئی ایم ایف قرض کی قسط جاری کردے گا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ ساتھ یورپی یونین بھی اپنے معاشی رضاکاروں کو پاکستان میں کھپانے کی کوشش کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس وقت ’’اِدھر بھی وہی اُدھر بھی وہی‘‘ جیسی دلچسپ صورت حال پیدا ہو کر رہ گئی ہے کہ پاکستانی کی معاشی ٹیم کے نام پر آئی ایم ایف کے پاکستانی نمائندے اپنے ہیڈ آفس کے ساتھ ہی مذاکرات کر رہے ہیں۔ اب پاکستانی نژاد نمائندے آئی ایم ایف سے کس طرح عام پاکستانی کے لیے ریلیف حاصل کرتے ہیں یہ ان کی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر تو آصف زرداری کہہ اٹھے ہیں یوں لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کا دفتر پاکستان منتقل ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ ن نے آئی ایم ایف کی اس موجودگی کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے راج سے تشبیہ دی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی میں مہنگائی کے خلاف کتبے اُٹھا کر شدید احتجاج کیا۔ اپوزیشن ارکان نے اسپیکر ڈائس کا گھیرائو بھی کیا۔ سینیٹ سے بھی اپوزیشن ارکان نے مہنگائی کے خلاف واک آئوٹ کیا۔ بلاول زرداری اور خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عوام کی جنگ سڑکوں پر لڑی جائے گی۔
اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تنقید بطور اپوزیشن ان کا حق ہے۔ ظاہر ہے کہ جمہوری نظام میں اپوزیشن کا اصل کام ہی حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں کی تنقید اور محاسبہ ہوتا ہے۔ یہ تو پاکستان میں عجیب پارلیمانی نظام تھا جس میں مفاہمتی پالیسی کے تحت اپوزیشن اور حکومت شیر وشکر رہنے لگے تھے۔ حکومت اور اپوزیشن میں اس قدر راز ونیاز رہنے لگا تھا کہ دونوں کے درمیان حد امتیاز ہی ختم ہو گئی تھی۔ اپوزیشن لیڈر ڈپٹی وزیر اعظم بن کر رہ گئے تھے۔ پارلیمانی نظام میں اس عجیب و غریب طرح کے خالق مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی تھے۔ اس پالیسی نے پارلیمانی نظام میں ایک تیسرے فریق کے لیے جگہ خالی کرنا شروع کی تھی اور یہ تیسرا فریق پی ٹی آئی بن گئی تھی۔ اب اپوزیشن جس طرح حکومت کو ایوانوں میں رگیدنے لگی ہے اس سے جمہوریت کمزور نہیں بلکہ مزید مضبوط ہو گی۔ ان جماعتوں کا المیہ صرف یہ ہے کہ یہ ماضی قریب کی حکمران جماعتیں ہیں۔ ملک کو معاشی حالات کی موجودہ دلدل تک لا چھوڑنے میں ان جماعتوں کا پورا پورا حصہ ہے۔ معاشی ماہرین تسلیم کررہے ہیں کہ موجودہ حکومت کو زبوں حال معیشت ورثے میں ملی۔ تاریخ میں اس زبوں حالی کی مثال نہیں ملتی۔ موجودہ حکومت کو جاری کھاتے کا انیس ارب ڈالر سے زیادہ خسارہ ملاجبکہ بجٹ خسارہ چھ فی صد تھا۔ موجودہ حکومت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین جیسے دوست ملکوں سے آٹھ ارب ڈالر جمع کرنے میں کامیاب ہو گئی مگر ملکی معیشت کا دیوالیہ غیر ملکی قرضوں کی قسطوں کے باعث نکل رہا ہے۔ ماضی میں بڑے پروجیکٹس کے لیے حاصل کیے گئے قرضے قوم کی رگوں کا خون نچوڑ رہے ہیں۔ قرض کی ہر قسط کی ادائیگی زرمبادلہ کے ذخائر کو کم کر تی جا رہی ہے۔ ان حالات کا الزام اب کس پر دھرا جائے؟ خزانہ ایک طرف تھوڑا بھر جاتا ہے تو قرض کی قسط اسے واپس نیچے پہنچاتی ہے اور اس طرح معیشت مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے۔ رواں ماہ پاکستان کو 840ملین ڈالر کے کمرشل لون کی ادائیگی کرنا ہے۔ اپوزیشن کی تنقید بجا ہے او ر ہوتی رہنی چاہیے مگر حالات کا آئینہ بہت بے رحم اور سچا ہے۔ اپوزیشن جب بھی اس میں جھانکے گی تو کوئی اچھی صورت نظر نہیں آئے گی۔ اس صورت حال نے آئی ایم ایف کو شیر بنا دیا ہے۔ آئی ایم ایف اپنی کڑی شرائط عائد کرکے پاکستانیوں کو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزا دینا چاہتا ہے۔ قرض کی ایک قسط کے بعد دوسری قسط کی عادت نے ہماری حالات اس نشے کے عادی اس مریض کی سی بنا ڈالی ہے جسے ایک کے بعد دوسرے سگریٹ کی طلب ستانے لگتی ہے۔ آئی ایم ایف کی متوقع قسط کو اس منصوبہ بندی سے کام میں لایا جائے کہ دوبارہ اس ظالم جفا جو کے در کے طواف سے چھٹکارہ مل جائے یہ اس حکومت کا اصل امتحان ہے۔ اسد عمر تو آئی ایم ایف کا آخری بیل آئوٹ پیکیج کا دعویٰ کرتے کرتے منظر سے ہٹ گئے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ واقعی آخری کشکول نمائی ہوتی یا ایک اور کشکول نمائی کا آغاز؟ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے نودریافت بیٹے اور آئی ایم ایف کے نمائندے مسیحائی اور حکمت کے نام پر اپنے مریض جاں بہ لب یعنی پاکستانی معیشت کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟۔