دوستو! ایک تھا بادشاہ، ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔ بادشاہ کا تعلق سیاسی خاندان سے نہیں تھا۔ پہلے وہ کرکٹ کھیلتا تھا پھر اس نے ملک وقوم سے کھیلنے کا فیصلہ کرلیا اور جمہوری عمل کے نتیجے میں ملک کا بادشاہ بن گیا۔ اس زمانے میں پچھلے بادشاہ کو چور اور کرپٹ کہنے کا رواج نہیں تھا۔ بس بغیر کچھ کہے گردن ماردیا کرتے تھے۔ بادشاہ اس زمانے کو یاد کرتا اور آہیں بھرتا۔ نیب کی کارکردگی اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ بادشاہ کا ایک وزیر بھی تھا۔ بہت چہیتا۔ انتہائی کرپٹ۔ بادشاہ کو اس کی کرپشن نظر نہیں آتی تھی۔ نظر بھی آتی تو نظرانداز کردیتا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وزیر جھگڑالو بہت تھا۔ جس محکمے میں بھی جاتا ٹنٹا کھڑا کردیتا۔ چند دن بعد ہی پورا محکمہ بادشاہ کے حضور کھڑا ہوجاتا حضور اس پنگے باز سے نجات دلائیں۔ بادشاہ بھی روز روز کی چخ چخ پخ پخ سے تنگ آگیا تھا۔ اس نے وزیر کو سمندر کی لہریں گننے پر تعینات کردیا۔ تدبیر کارگر رہی۔ وہ وزیر جسے کسی کل چین نہیں آتی تھی۔ سمندر کنارے بیٹھا سستی سے لہریں گنتا رہتا۔ چند دن میں وہ اس ڈیوٹی سے عاجز آگیا۔ اسے سمجھ نہیں میں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ تھک ہار کر اس نے بابا آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کا کیس سن کر بابا آئی ایم ایف نے چھوٹی سی پرچی اس کے ہاتھ میں تھمادی جس پر ایک ہی لفظ تحریر تھا ’’ٹیکس‘‘۔ پہلے تو وزیر کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ غور کیا تو بابا آئی ایم ایف کا حل اس کی سمجھ میں آگیا۔ اس نے نعرہ مارا اور دوبارہ سمندر کنارے جاکر بیٹھ گیا۔ تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ بادشاہ کے دربار میں وزیر سے متاثرہ لوگوں کا پھر رش لگ گیا۔ بادشاہ حیران کہ یاخدا لہریں گننے میں کرپشن کا راستہ کیسے کھل سکتا ہے۔ لوگوں سے دریافت کیا تو انہوں نے عرض کی ’’بادشاہ سلامت ہم سمندر کی لہروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے جیسے ہی پانی میں قدم رکھتے ہیں، آپ کا وزیر ہمیں پکڑ لیتا ہے کہ تم نے سرکاری کام میں مداخلت کی ہے۔ تمہاری وجہ سے لہریں ڈسٹرب ہوئی ہیں۔ ان کی گنتی میں غلطی کا امکان پیدا ہوگیا لہٰذا ادا کرو جرمانہ۔ وہ اس جرمانے کو ساحل چہل قدمی ٹیکس کہتا ہے‘‘۔ بادشاہ نے تنگ آکر وزیر کو اطلاعات اور نشریات کا شعبہ سونپ دیا۔ اس وزارت میں وزیر کی صلاحیتیں خوب کھل کر سامنے آئیں۔ وہ بادشاہ ہی کے لہجے میں اپوزیشن کو دن رات بے نقط سناتا تھا۔ جائز ناجائز بادشاہ کی حمایت کرتا تھا لیکن ایک دن صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو پتا چلا کہ اب وہ وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت فواد چودھری کے لیے ایک صدمہ تھی۔ اس کے ملک میں سائنس اور تعلیم کی وزارت کسی بھی وزیر کو بطور سزا دی جاتی تھی لیکن بعض صدمے اور چوٹیں ایسی ہوتی ہیںکہ لاشعور میں دبی خواہشوں کو بیدار کردیتی ہیں۔ فواد چودھری کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اسے یاد آیا کہ دوران تعلیم سائنسی کتابوں میں سائنسی قوانین اور فارمولوں کے بجائے جب وہ مسلمانوں کے سائنس پر احسانات اور عظیم مسلمان سائنس دانوں کے صدیوں پرانے کارنامے پڑھتا تو اس کے دل میں بھی سائنس پر احسان کرنے کے جذبات جنم لینے لگتے۔ ڈارون کی تھیوری پڑھی تو اسے لگا کہ اس کا چہرہ کسی جانور کا چہرہ بن گیا ہے۔ غور سے دیکھا تو جانور کا نہیں اس کا چہرہ آلو کی مثل ہوگیا تھا۔ ہر سبزی میں مکس۔ بہر حال یہ وہ وقت تھا کہ وہ ہر چیز حتی کہ خود کو بھی سائنس کی نظر سے دیکھتا تھا۔ لیکن جب اسے پتا چلا کہ سائنس میں ڈڈو کا آپریشن کرنا پڑتا ہے تو اس نے ارادہ ترک کردیا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ساتھی طالب علم اسے ڈڈو کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ سائنس کا خیال چھوٹا تو اس نے سیاست میں قدم رکھ دیا اور تحریک شغلیہ جوائن کرلی۔ جہاں جلد ہی وہ بادشاہ شغل اعظم کا چہیتا وزیر بن گیا۔ بہرحال سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت ملی تو اس کے اندر کا سائنس دان جاگ اٹھا۔ وہ ایک سائنس لیبارٹری میں گھسا تو پھر باہر نہیں نکلا۔ سائنسی تجربات تھے اور وہ تھا۔ ہر روز اس کی کوئی نہ کوئی سائنسی تحقیق اور انکشاف سامنے آنے لگا۔ سوشل میڈیا کی سائٹس جہاں دنیا بھر کی فضولیات بھری ہوتی تھیں۔ اب سائنس دان فواد نیوٹن چودھری کے سائنسی کارناموں سے جگمگ کرنے لگیں۔ یہ انکشافات ضائع نہ ہوجائیں ہم نے مختلف سائٹس سے سائنس دان فواد نیوٹن چودھری کے کچھ انکشافات جمع کیے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
٭ زمین سورج سے اتنی ہی دور ہے جتنا دور سورج زمین سے ہے۔
٭ بارش کے دوران جو بجلی چمکتی ہے اس کا مقصد یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کوئی جگہ خشک تو نہیں رہ گئی۔
٭ بارش کے بعد جو برساتی مینڈک شور مچاتے ہیں وہ اصل میں تبدیلی کے گیت گارہے ہوتے ہیں۔
٭ اگر آپ کے بچے مٹی کھاتے ہیں تو انہیں سیمنٹ کھلائیں تاکہ ان کی بنیادیں مضبوط رہیں۔
٭ غریب کی خارش کو کھرک اور امیر کی خارش کو الرجی کہتے ہیں۔
٭ جس تیزی سے پاکستان خان صاحب کے دور میں ترقی کررہا ہے ہم جلد ہی نظام شمسی سے باہر نکل جائیں گے۔
٭ پہلا روزہ یکم رمضان کو ہوگا۔
٭ ’’ہو‘‘ کرو تو منہ سے ٹھنڈی ہوا نکلتی ہے ’’ہا ‘‘کرو تو منہ سے گرم ہوا نکلتی ہے۔
٭ اخروٹ نہ ٹوٹے تو دروازے کی قبضے والی سائیڈ میں دروازے اور چوکھٹ کے درمیان رکھ کر دروازہ بند کردیں ان شااللہ ثابت گری نکلے گی۔
٭ انسان ایک واٹر پروف جاندار ہے جتنا مرضی نہالے پانی اندر نہیں جائے گا۔
٭ ہم پانی اس لیے پیتے ہیں کیوںکہ ہم پانی کھا نہیں سکتے۔
٭ اتنا تیز F-16 نہیں جاتا جتنی تیزی سے بادام ہتھوڑی لگنے کے بعد بیڈ کے نیچے جاتا ہے۔
٭ دو منٹ کے لیے پنکھا چلائیں اور پھر بند کردیں تو وہ پنکھا ایک منٹ کے لیے فری میں گھومے گا۔ یوں بجلی کا خرچہ آدھا رہ جائے گا۔
٭ اگر جامن کے پیڑکے نیچے گلاب کا پودا لگا دیا جائے تو گلاب جامن نکل آئیں گے۔
٭ گلاب جامن دیکھ کر منہ میں پانی اس لیے آتا ہے کیوںکہ پانی دیکھ کر منہ میں گلاب جامن نہیں آسکتا۔
٭ اگر آپ جوس کا ڈبا پی کر پٹاخہ مارنے کے بجائے اسے قینچی سے کاٹ لیں تو ایک گھونٹ جوس اور پی سکتے ہیں۔
٭ عیدالفطر تب تک نہیں آئے گی جب تک رمضان کے روزے پورے نہیں ہوجاتے۔
٭ صبح صبح سمندر سے دھواں اس لیے اٹھتا ہے کیوںکہ مچھلیاں ناشتہ پکاتی ہیں۔
٭ گرمی میں ٹمپریچر 40سینٹی گریڈ اور سردیوں میں 10سینٹی گریڈ اس لیے ہوتا ہے کہ گرمیاں سردیوں سے زیادہ پڑھی لکھی ہوتی ہیں۔
٭ سورج رات کو بھی نکلتا ہے لیکن اندھیرے کی وجہ سے نظر نہیں آتا۔
٭ پانی اُبالتے وقت جو آوازآتی ہے وہ جراثیموں کی چیخوں کی ہوتی ہے۔
٭ بھینس دم اس لیے ہلاتی ہے کیوںکہ دم بھینس نہیں ہلاسکتی۔
٭ برش کرنے کے بعد دانتوں پر انگلی پھیرنے سے اگر کیچوں کیچوں کی آواز آئے تو سمجھ لیں دانت صاف ہوگئے۔
٭ سیون اپ کی بوتل کھلتے ہی جو پھک کی سی آواز آتی ہے وہ بوتل میں موجود گیس کی وجہ سے آتی ہے۔
فواد نیوٹن چودھری کے تمام تر انکشافات اپنی جگہ لیکن بصد غور کرنے کے بعد بھی وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔