دُنیا میں یہ حقیقت اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اقوام متحدہ اور اسی طرح کے دوسرے ادارے امریکا اور مغربی طاقتوں کے زیر اثر چلنے والے عالمی ادارے ہیں جنہیں یہ طاقتیں اپنے مفادات، اپنے ایجنڈے اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں، غریب اور کمزور ممالک کو اپنے شکنجے میں جکڑنے، ان نے وسائل پر قبضہ کرنے اور اپنے مقاصد کا آلہ کار بنانے کے لیے مالی امداد، قرضوں، بیل آئوٹ پیکیجز اور سرکاری تعاون جیسی اصطلاحات کے ذریعے ان ممالک کی آزادی اور خود مختاری ختم کردیتی ہیں۔
پاکستان بھی اس وقت اسی طرح کی صورت حال سے گزر رہا ہے، تبدیلی کا نعرہ لگا کر آنے والی تحریک انصاف کی حکومت، جس نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کرنے، بیرونی امداد اور قرضوں پر شرم کرنے، ٹیکس چوری کی 200 ارب ڈالر کی رقم بیرونِ ملک سے واپس لانے، پٹرول، بجلی اور گیس سستا کرنے اور ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے جیسے پُرکشش دعوے کیے تھے، اپنے وزیر خزانہ کو برطرف کرنے اور اپنی بنائی ہوئی اکنامک ایڈوائزری ٹاسک فورس کو غیر فعال کرنے کے بعد ورلڈ بینک کے نمائندے ڈاکٹر حفیظ شیخ کو مشیر خزانہ بنادیا ہے اور اسٹیٹ بینک کے گورنر کو برطرف کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے حاضر سروس ڈاکٹر باقر رضا کو جو مصر میں آئی ایم ایف کی جانب سے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر تھے، ان کا راتوں رات نادرا سے شناختی کارڈ بنوا کر اسٹیٹ بینک کا گورنر بنادیا ہے۔ اسی طرح آخری خبریں آنے تک پاکستانی چارٹر اکائونٹنٹ شبر زیدی کو ایف بی آر (FBR) کا اعزازی چیئرمین بنادیا ہے اور ایف بی آر کے افسران اور کسٹم آفیسرز ایسوسی ایشن نے بھی اپنے تحفظات واپس لے لیے ہیں۔
جناب ڈاکٹر باقر رضا جو اس سے پہلے مصر میں آئی ایم ایف کے پروگرام کو دیکھ رہے تھے وہاں کی معیشت کا یہ حال ہے کہ افراط زر 30 فی صد، بے روزگاری کی شرح 12 فی صد، ملکی قرضے مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے 103 فی صد، شدید غربت میں آبادی کا تناسب 28 فی صد اور بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے لحاظ سے 8.6 فی صد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں آئی ایم ایف کا پروگرام شروع ہونے کے بعد معیشت کا کیا حال ہوگا۔ ابھی تو صرف شرائط سامنے آرہی ہیں جس کے ساتھ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں آرہی ہیں۔ روپے کی قدر میں مزید کمی پر قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ ڈسکائونٹ ریٹ میں اضافے کی باتیں ہورہی ہیں، عوام کو دی جانے والی تمام سبسڈیاں ختم کرنے کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام پر مہنگائی کا ایک سیلاب آنے والا ہے جس میں سب سے زیادہ غریب آدمی متاثر ہوگا، اس وقت بھی بجلی، گیس اور پٹرول مہنگا کرنے سے مہنگائی کی شرح 9 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ غیر یقینی اور سست روی کی فضا میں کاروباری سرگرمیاں ٹھنڈی پڑ گئی ہیں، احتساب احتساب کی رٹ لگانے سے ملکی سرمایہ کاری رُک گئی ہے، صنعتی شعبہ کی پیداوار میں اضافے کے بجائے 2 فی صد کمی ہوئی ہے، ٹیکس وصولی گزشتہ برسوں سے بھی کم ہوئی ہے، تمام تر کوششوں کے باوجود برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا ہے، بجٹ خسارہ مالی سال 2018-19ء کے آخر تک 2700 ارب ہوجانے کا امکان ہے۔ پاکستان سے باہر چھپی ہوئی 200 ارب ڈالر کی رقم واپس لانے کا خواب چکنا چور ہوچکا ہے۔ حکومت نے اس سلسلے میں ایک ریکوری یونٹ بنایا تھا جس کے انچارج شہزاد اکبر تھے جنہوں نے سیکڑوں اور ہزاروں غیر ملکی اکائونٹ اور اثاثوں کا سراغ لگایا مگر ایک ڈالر بھی واپس نہ لاسکے۔
اب اس سلسلے میں حکومت کے سامنے ایک ایمنسٹی اسکیم زیر غور ہے، اس طرح کی اسکیم کی عمران خان صاحب پہلے بہت مخالفت کیا کرتے تھے اب اُن کی حکومت بہت جلد اسی طرح کی اسکیم لانے والی ہے تا کہ وہ لوگ جو ٹیکس چوری، رشوت، اسمگلنگ کے ذریعے بھاری مقدار میں کالا دھن پاکستان سے باہر لے گئے ہیں وہ ایک معمولی رقم ادا کرکے اس بلیک منی کو وائٹ کراسکیں۔ لیکن یہ سب امیر لوگوں کی باتیں ہیں جہاں تک غریب اور متوسط طبقے کا معاملہ ہے وہ رمضان کے آغاز میں ہونے والی ہوش ربا گرانی سے پریشان ہے، کھانے پینے کی تمام ہی اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، جب کہ حالیہ کابینہ کے اجلاس میں وزرا اس بات پر مطمئن ہیں کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر سخت نظر رکھی ہوئی ہے جب کہ عوام حیران ہیں کہ یہ کون سی نظر ہے جس کی وجہ سے اشیا کی قیمتوں کو پَر لگ گئے ہیں اور روزانہ کے حساب سے اُن میں اضافہ ہورہا ہے۔