بڑا بھائی‘ چھوٹا بھائی

296

مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد میاں نواز شریف عدالت عظمیٰ سے طبی بنیادوں پر مستقل ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد پھر جیل پہنچ گئے ہیں۔ یار لوگ کہہ رہے ہیں کہ میاں صاحب نے عدالت عظمیٰ میں براہ راست مستقل ضمانت کی درخواست دے کر اپنے پائوں پر خود کلہاڑی ماری ہے اور ’’آبیل مجھے مار‘‘ کا نعرہ مستان بلند کیا ہے۔ حالاں کہ عدالت عظمیٰ نے انہیں 6 ہفتوں کی عبوری ضمانت دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ درخواست گزار مزید چارہ جوئی کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے۔ میاں صاحب 6 ہفتوں کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ یا لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرتے تو اس بات کا امکان تھا کہ انہیں وہاں سے بھی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں چار چھ ہفتوں کا ریلیف مل جاتا اور انہیں فوری طور پر جیل نہ جانا پڑتا لیکن ان کے ماہر وکیل نے اُونچی اُڑان بھری اور عدالت عظمیٰ کی منڈیر پر جا بیٹھے جہاں سے انہیں یہ کہہ کر اُڑا دیا گیا کہ میاں صاحب خود اپنے علاج میں سیریس نہیں ہیں، وہ چھ ہفتوں میں ایک گھنٹہ انجیوگرافی کے لیے نہیں نکال سکے، حالاں کہ خود ڈاکٹروں نے اس کی تجویز دی تھی۔ میاں صاحب کے وکیل نے جب اپنے موکل کے حق میں دلائل کا انبار لگادیا تو عدالت عظمیٰ کا تاثر یہ تھا کہ شاید فاضل وکیل یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے موکل کو عبوری ضمانت سے فائدے کے بجائے نقصان پہنچا ہے۔ چناں چہ عدالت عظمیٰ نے ضمانت کی درخواست مسترد کرکے ان کے نقصان کی تلافی کردی، اب میاں صاحب جیل میں ہیں اور جیل سے باہر رہ کر ان کی صحت میں جو خرابی پیدا ہوگئی تھی اسے دور کرنے کا جتن کررہے ہیں۔ دوسری طرف ان کے برادر خورد میاں شہباز شریف لندن کی ٹھنڈی ہوائوں کا لطف اُٹھا رہے ہیں، اگرچہ وہ بھی نیب کی ہٹ لسٹ پر ہیں لیکن انہوں نے اپنی حکمت عملی سے نیب کی کوششوں کو ناکام بنادیا ہے۔ ہائی کورٹ نے نیب کے مقدمات میں انہیں ضمانت دے دی ہے، وہ ایگزیٹ کنٹرول لسٹ سے بھی اپنا نام نکلوانے میں کامیاب رہے ہیں اور اس طرح وہ اپنے حریفوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں ان کا ایک بیٹا اور داماد پہلے سے موجود ہیں۔ میاں شہباز شریف نے لندن میں چند روز آرام کرنے کے بعد پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے منصب سے استعفا بھی اپنی پارٹی کو بھیج دیا ہے جس کی روشنی میں مسلم لیگ (ن) اپنی نئی صف بندی پر مجبور ہوگئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خود شریف فیملی سیاست سے کنارہ کشی کا راستہ اختیار کررہی ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ شریف برادران کا اتحاد ہی درحقیقت سیاست میں ان کی کامیابی کی علامت تھا لیکن اب اس اتحاد میں محض دراڑ ہی نہیں پڑی بلکہ ایک بڑی خلیج حائل ہوگئی ہے اور یہ خلیج ذاتی مفادات اور ذاتی بقا کی خلیج ہے جسے محض خوش نما وعدوں سے نہیں پاٹا جاسکتا۔
دونوں بھائیوں کو الگ الگ مسائل کا سامنا ہے۔ بڑا بھائی پاناما لیکس کے مقدمے میں سیاست کے لیے مستقل طور پر نااہل ہوچکا ہے وہ اب نہ اپنی سیاسی پارٹی کی عملاً قیادت کرسکتا ہے نہ انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے، جب کہ احتساب عدالت کے فیصلوں کے نتیجے میں اس کی آزادی بھی چھن گئی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اسے طبی بنیادوں پر چھ ہفتوں کی عبوری آزادی تو دی تھی لیکن یہ چھ ہفتے درپردہ سیاسی جوڑ توڑ کی نذر ہوگئے، اب اسے پھر جیل کی سلاخوں اور گھٹن کا سامنا ہے، اس کا سب سے بڑا مسئلہ جیل سے رہائی اور لندن کی آزاد فضا تک رسائی ہے جہاں اس کے دونوں بیٹے اس کی کمائی ہوئی دولت پر دادِ عیش دے رہے ہیں، انہیں یہ عیش اس قدر عزیز ہے کہ اپنی والدہ کے جنازے میں شرکت کے لیے پاکستان بھی نہیں آئے کہ مبادا دھرلیے جائیں اور لندن واپسی ان کے لیے خواب و خیال بن جائے۔ پاکستانی قانون کی نظر میں وہ مفرور ہیں البتہ برطانوی شہریت ان کے لیے ڈھال ثابت
ہورہی ہے۔ دونوں فرزند اپنی دولت سرنڈر کرکے باپ کو بچا سکتے تھے لیکن وہ شاید اس کے لیے بھی آمادہ نہیں ہیں۔ حالاں کہ حکومت کی مجبوری اور
تنگدستی کا یہ حال ہے کہ وہ باخبر ذرائع کے مطابق پچیس ارب ڈالر کے مطالبے سے پسپا ہوتے ہوتے ڈھائی ارب ڈالر پر آگئی ہے۔ یعنی میاں نواز شریف عمرانی حکومت کو ڈھائی ارب ’’تاوان‘‘ ادا کردیں تو ان کی جان چھوٹ سکتی ہے۔ عمران خان بے شک یہ راگ الاپتے رہیں کہ وہ کسی کو این آر او نہیں دیں گے لیکن وہ یوٹرن لینے کے بادشاہ ہیں انہیں جہاں ڈھائی ارب کی ’’چمک‘‘ نظر آئی وہ الٹے پائوں اپنے موقف سے پھر جائیں گے۔ سنا ہے کہ ڈھائی ارب کے فارمولے پر کام ہورہا ہے اگر معاملات طے پاگئے تو میاں نواز شریف کسی وقت بھی اڑان بھر سکتے ہیں۔ چھوٹا بھائی انہیں لندن میں دیکھ کر حیران تو ضرور ہوگا لیکن پھر اسے اپنی کامیاب اسٹرٹیجی پر بڑے بھائی کو قائل کرنا زیادہ آسان ہوجائے گا۔ کہتے ہیں کہ دولت تو چھوٹے بھائی کے بیٹوں نے بھی خوب بنالی ہے اور انہیں بھی نیب کی طرف سے منی لانڈرنگ کیس کا سامنا ہے، اگر یہ کیس عدالت میں ثابت ہوگیا اور سزا سے بچنے کے لیے چھوٹے بھائی کو ’’پلی بارگین‘‘ کی آفر ہوئی تو وہ اسے قبول کرنے میں ذرا سی دیر نہیں لگائے گا کہ اس کی ساری سیاست ہی مزاحمت کے بجائے مفاہمت پر مبنی ہے۔ بڑا بھائی مزاحمت، چھوٹا بھائی مفاہمت۔ کیا خوب سیاست ہے۔