پاکستان اور چین کے تعلقات جس طرح زندگی کے تمام شعبوں میں بلندیوں، گہرائیوں اور وسعتوں کی راہوں پر گامزن ہیں اسی انداز ورفتار سے ان تعلقات میں پیچیدگیاں پیدا ہونے کا احتمال بھی ہے۔ انسان جس قدر مہذب اور ترقی یافتہ ہوجائے اپنی نفسیات اور جبلت کا یرغمال ہی رہتا ہے۔ دھوکا دہی، نوسربازی اور اچھائی کو برائی کا جامہ پہنانا انسانی نفسیات کے مظاہر ہیں۔ چین اور پاکستان کے تعلقات میں جہاں لاتعداد شعبوں میں مثالی تعاون دیکھنے کو مل رہا ہے وہیں سی پیک جیسے منصوبے دونوں کی قربتوں کو بڑھانے کا باعث ہے۔ انسانی جبلت تعلق کی اس دیوار میں دراڑ ڈالنے اور نقب لگانے سے بھی باز نہیں آئے گی۔ جس کا ایک ثبوت چینی باشندوں کی طرف سے پاکستان میں جعلی میرج بیوروز اور نیٹ ورکس کا قیام اور اس کے نتیجے میں لڑکیوں کی اسمگلنگ ہے۔ چین میں ایک بچہ پیدا کرنے کی حکومتی پالیسی نے جنس کو عدم توازن کا شکار کیا ہے۔ اس پالیسی کے باعث لڑکیوں کی تعداد کم اور مردوں کی تعداد بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے شادی کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اس کمی کو پورا اور عدم توازن کو دورکرنے کے لیے طلب اور رسد کے کاروباری اصول کے تحت ویت نام، شمالی کوریا اور لاوس سے لڑکیاں چین لائی جاتی رہیں اور گزشتہ برس کے اواخر میں انسانی اسمگلروں کے نیٹ ورک کی نظروں میں پاکستان بھی آیا اور یہاں بہت تیز رفتاری سے چینی نوسرباز گروہ پہنچ گئے اور انہیں مقامی سہولت کار بھی میسر آگئے۔ ایک اندازے کے مطابق سات سو سے ایک ہزار لڑکیوں کو شادی کے نام پر چین منتقل کر دیا گیا۔ یہ معاملہ اس وقت پوری طرح کھلا جب چین بیاہ کرجانے والی لڑکیوں نے یہ انکشاف کیا کہ چین لے جائی جانے والی لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے استعمال کرنے کے علاوہ ان کے اعضاء عالمی نیٹ ورکس کو فروخت کیے جاتے ہیں۔ ان خبروں نے پاکستانی معاشرے میں ایک سنسنی پیدا کر دی۔
رپورٹس کے مطابق شادی کے نام پر چین منتقل کی جانے والی لڑکیوں کی اکثریت کا تعلق فیصل آباد اور اس کے نواح میں مقیم عیسائی کمیونٹی سے تھا۔ یہ کمیونٹی مالی اعتبار سے ناآسودگی کا شکار ہے اور جہیز اور دوسری رسوم کے باعث بیٹیوں کی شادیوں کے معاملے میں شدید مشکلات کا شکار رہتی ہے مگر یہی نہیں کہ چین منتقل کی جانے والی سب لڑکیاں عیسائی ہیں بلکہ ان میں دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کی اس کارروائی کو واشنگٹن پوسٹ، الجزیرہ اور ٹائمز آف انڈیا جیسے اداروں نے بھی رپورٹ کیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے تو اس پر تفصیلی رپورٹ لکھی ہے اور اس کو عیسائی لڑکیوں کی چین اسمگلنگ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی نوسرباز پینتیس سو ڈالر سے پچاس پانچ ہزار ڈالر تک ادا کرکے عملی طور پر لڑکیوں کو خریدتے ہیں۔ جہیز کے پہاڑ تلے آنے کے خوف کا شکار والدین کے لیے یہ بات نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوتی کہ ان کی بیٹی بیاہی بھی جاتی ہے اور جہیز دینے کے بجائے انہیں ساتھ ہی رقم بھی مل جاتی ہے۔ شاید اسی پہلو نے چینی نوسربازوں کا کام آسان بنایا اور انہیں لڑکیوں کے حصول کے لیے پوری مارکیٹ دستیاب ہو گئی۔ یہ فرسودہ رسوم کی غلامی کی ڈور میں بندھے ہمارے سماج کے لیے بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں خبریں چھپنے کے بعد ایف آئی اے نے چینی نوسربازوں اور ان کے مقامی سہولت کاروں کے نیٹ ورک کا سراغ لگانے کا راستہ اختیار کیا تو بہت جلد ہی تحقیقاتی ادارے ان گروہوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ کئی ٹھکانوں سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے گروہ دھر لیے گئے۔ یوں ’’چلو چلو چین چلو‘‘ کے انداز میں چل پڑنے والی ایک لہر کو پہلے مرحلے پر ہی روک دیا گیا اور یوں بہت سے پاکستانی گھرانے اور لڑکیاں دھوکے کا شکار ہونے سے بچ گئے۔ چین اور پاکستان کے درمیان قریبی تعلق کے باجود دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان بہت بڑی سماجی، تہذیبی اور ثقافتی خلیج حائل ہے۔ دونوں ملکوں کے لوگوں میں اگر شادیاں معمول کے مطابق بھی طے پائیں تب بھی ایک پاکستانی لڑکی کے لیے یکسر اجنبی ماحول میں گزارا کرنا قطعی ممکن نہیں ہوتا۔ اچھا ہوا کہ پہلے مرحلے پر ہی اس رجحان کے رواج بننے میں رکاوٹ پیدا ہوگئی۔ خوش آئند بات یہ کہ چینی حکومت نے نہایت خوش دلی سے اس معاملے کی تحقیقات اور پاکستان سے بھرپور تعاون کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان کے تحقیقاتی اداروں نے بھی اس معاملے میں کسی مصلحت کا شکار ہونے کے بجائے آزادانہ انداز میں کارروائی کرکے اچھا کردار ادا کیا۔ حکومت کو اس حوالے سے چین کے اشتراک کے ساتھ آگاہی مہم شروع کرنی چاہیے۔
جوں جوں سی پیک کا منصوبہ آگے بڑھے گا اور تجارتی حجم میں اضافہ ہوگا اسی رفتار سے چین اور پاکستان کے تعلقات میں گہرائی اور وسعت آتی جائے گی۔ چینی باشندوں کی محنت کشوں اور تاجروں کی صورت یہاں موجودگی بھی بڑھتی جائے گی کیوںکہ قربتیں بڑھنا بھی ان تعلقات کا لازمی نتیجہ ہے مگر ان قربتوں کو خرابیوں کی نذر کرنے کی ہر کوشش پر نظر رکھنا ہوگی اور انانیت کا شکار ہوئے بغیر ان خرابیوں کو دور کرتے رہنا ہوگا۔ عوام کے اندر یہ شعور بیدار کرنا بھی لازمی ہے کہ چند روپوں کے عوض وہ اپنی بیٹی کو جیتے جی جہنم میں دھکیلنے سے باز رہیں۔