کپتان ٹھیک ہی کہتے ہیں؟

356

مدینہ اور اطراف مدینہ میں ہوا چلتی تو مٹی راکھ کی طرح اڑتی تھی۔ قحط کے سبب اس سال کو راکھ کا سال کہا گیا۔ سیدنا عمر فاروق ؓ نے گورنروں کو لکھا ہر جگہ سے غلہ روانہ کیا جائے۔ حسن انتظام کے کمال کے باوجود جب تک قحط رہا گوشت، گھی، مچھلی کوئی لذیذ چیز نہ کھائی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر دعا مانگتے ’’اے اللہ محمد ؐ کی امت کو میری شامت اعمال سے تباہ نہ کر‘‘۔ ان کے غلام کا کہنا ہے قحط کے زمانے میں سیدنا عمر ؓ کو وہ فکر اور تردد تھا لگتا تھا اگر قحط رفع نہ ہوگا تو وہ اس غم میں تباہ ہوجائیں گے۔ ایک مرتبہ ایک بدو ان کے پاس آیا اور کہا ’’اے عمر اگر لطف ہے تو جنت کا لطف ہے۔ میری بیٹیوں اور ان کی ماں کو کپڑے پہنا۔ اللہ کی قسم تجھ کو یہ کرنا ہوگا‘‘۔ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا ’’اگر میں تمہاری بات نہ مانوں تو کیا ہوگا‘‘۔ بدو نے کہا ’’تجھ سے قیامت میں میری نسبت سوال ہوگا اور تو ہکا بکا رہ جائے گا۔ پھر یا دوزخ کی طرف یا بہشت کی طرف جانا ہوگا‘‘۔ سیدنا عمرؓ اس قدر روئے کہ ڈاڑھی تر ہوگئی۔ غلام سے کہا ’’میرا یہ کرتا اس کو دے دے۔ اس وقت اس کے سوا اور کوئی چیز میرے پاس نہیں‘‘۔ ایک مرتبہ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے۔ ایک شخص کو دیکھا بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا ہے۔ پاس جاکر فرمایا ’’دائیں ہاتھ سے کھا نا کھائو‘‘ اس نے کہا ’’جنگ موتہ میں میرا دایاں ہاتھ جاتا رہا تھا‘‘۔ یہ سننا تھا کہ سیدنا عمر ؓ پر رقت طاری ہوگئی۔ اس کے برابر بیٹھ گئے اور رو رو کر کہنے لگے ’’افسوس کہ تم کو وضو کون کراتا ہوگا؟ سر کون دھلاتا ہوگا؟ کپڑے کون پہناتا ہوگا؟‘‘ پھر ان کے لیے ایک نوکر مقرر کیا اور تمام ضروری چیزیں بھی مہیا کردیں۔
اس کامیابی سے عہدہ برآہونے، دنیا کے کامیاب ترین حکمران ہونے کے باوجود منصب خلافت کی گرانباری سے آپ لرزتے رہتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے ’’اگر میں جانتا کہ کوئی شخص اس کام (خلافت)کے لیے مجھ سے زیادہ قوت رکھتا ہے تو خلافت قبول کرنے کی نسبت میرے لیے یہ زیادہ آسان تھا کہ میری گردن ماردی جائے‘‘۔ ایک موقع پر فرمایا ’’کاش میں ایک تنکا ہوتا اور حکمران نہ ہوتا کاش میں ایک پرندہ ہوتا اور ان بھاری ذمے داریوں سے مبرا ہوتا‘‘۔ منصب خلافت سنبھالنے کے بعد سیدنا عمر بن عبدالعزیز گھر میں داخل ہوئے تو ڈاڑھی آنسوئوں سے تر تھی۔ اہلیہ نے دریافت کیا ’’خیریت‘‘ فرمایا ’’خیریت کہاں، امت محمدی کا بوجھ میری گردن پر ڈال دیا گیا ہے۔ ننگے، بھوکے، بیمار، غلام، مسافر، قیدی، بچے، بوڑھے، کم حیثیت، عیالدار سب کا بوجھ میرے سر آن گرا ہے۔ اس خوف سے رو رہا ہوں کہ کہیں قیامت میں مجھ سے پرسش ہو اور میں جواب نہ دے سکوں‘‘۔
حکومت کرنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ حکومت کے فیصلوں سے ایک فرد نہیں، ایک خاندان نہیں، ایک شہر نہیں، پورے ملک کے عوام کی خوشیاں اور غم جڑے ہوتے ہیں۔ اچھی حکومت مملکت کی فلاح وبہبود اور بری حکومت تباہی اور بربادی ہوتی ہے۔ جس شخص کو اللہ اور رسول اکرمؐ کا خوف ہو، جواب دہی کا احساس ہوکہ اگر خلق خدا کو روٹی، کپڑا مکان نہ دے سکا، لوگوں کی جان مال اور آبرو کی حفاظت نہ کرسکا تو روز محشر اللہ کو کیا جواب دوں گا وہ کبھی حکمرانی کا منصب قبول نہیں کرے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالے نو ماہ ہونے کو آرہے ہیں اس عرصے میں انہوں نے پاکستان کے عوام کا جو حال کیا ہے، جس طرح ان کی غربت اور افلاس میں اضافہ کیا ہے، غریبوں کے منہ سے نوالا چھینا ہے، تن کے کپڑے تار تار کیے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آٹا، دال، چینی، گوشت، دوائیں، کرایے ہر چیز کو آگ لگی ہوئی ہے۔ تمام اشیا عوام کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔ مہنگائی نے لوگوں کی زندگی میں جَگر جَگر انگارے بھر دیے ہیں۔ لوگوں کو دو وقت درکنار ایک وقت کی روکھی سوکھی روٹی نہیں مل رہی۔ لیکن وہ فرما رہے ہیں کہ حکومت کرنا بہت آسان ہے۔ اس جملے میں جو کامل بے فکری، لطف اور مسرت ہے اسے دیکھتے ہوئے سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومتی ذمے داریوں سے سیدنا عمر ؓ کیوں اتنے پریشان اور گرانبار رہتے تھے۔
مسلم لیگ ن کے مشاہد اللہ کی نظر سے دیکھا جائے تو سیدنا عمر ؓ کا طرزعمل، ذمے داریاں، اور پریشانی چودہ سو برس پرانی بات ہے اب زمانہ بدل گیا ہے۔ حکومت اب کسی ایک فرد کی ذمے دار نہیں ہے۔ یہ خلافت کا نظام نہیں ہے کہ دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا ہو تو خلیفہ وقت ذمے دار ہے۔ یہ جمہوریت ہے۔ اب حکومتی ذمے داریاں تقسیم ہو گئی ہیں۔ اب حکومت کسی کی ذمے داری نہیں۔
معیشت کسی بھی حکومت کے لیے سب سے بڑی اور سب سے مشکل ذمے داری ہوتی ہے جس سے عوام کی زندگی، بھوک اور افلاس وابستہ ہوتی ہے۔ خان صاحب کی حکومت نے معیشت آئی ایم ایف کے سپرد کردی ہے۔ وزیر خزانہ بھی آئی ایم ایف کا، اسٹیٹ بینک کا گورنر بھی آئی ایم ایف کا، ایف بی آر بھی آئی ایم ایف کے پسندیدہ شخص کے سپرد۔ ملک میں ٹیکس لگا نے کا معاملہ ہو، ٹیکس جمع کرنے کا مسئلہ ہو، روپے کو بے توقیر کرنا ہو، تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہو، عوام کا خون نچوڑنا ہو۔ سب آئی ایم ایف کے سپرد۔ اب یہ سب کچھ خان صاحب کا درد سر نہیں ہے۔ حکومت کرنا بہت آسان ہے۔
القادر یونی ورسٹی کے افتتاح کے موقع پر کپتان نے فرمایا کہ القادر یونی ورسٹی کے لیے فنڈز عوام سے اکٹھے کیے جائیں گے۔ اس کی تعمیر پر حکومت ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرے گی۔ اب تک تعلیم ریاست کی ذمے داری تھی۔ خان صاحب نے یہ مسئلہ بھی حل کردیا۔ اب تعلیمی ادارے بنانا ریاست کی نہیں عوام کی ذمے داری ہے۔ حکومت کرنا بہت آسان ہے۔
الیکشن کے ہنگام عوام سے کیے گئے وعدوں کا پورا کرنا کسی بھی حکومت کے لیے انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے وعدوں کے تناظر میں تیاری کرتی ہیں، ماہرین کی ٹیمیں بناتی ہیں، پالیسیاں، منصوبے اور حکمت عملیاں طے کرتی ہیں۔ عمران خان جب وعدے کررہے تھے کہ پروٹو کول نہیں لیں گے، میٹرو نہیں بنائیں گے، ترقیاتی فنڈز اراکین پارلیمنٹ کو نہیں دیں گے۔ قرضے نہیں مانگیں گے، کسی سے بھیک نہیں لیں گے، مخلوط حکومت نہیں بنائیں گے، حکومت سازی میرٹ پر کریں گے تو امید تھی کہ انہوں نے ان وعدوں کی تکمیل کے لیے تیاری کی ہوگی۔ لیکن اقتدار ملنے کے بعد یوٹرن لینا عظیم لیڈر کی نشانی بن جائے، وعدوں سے مکر جانا بہترین حکمت عملی قراردی جائے تو پھر حکومت کرنا بہت آسان ہے۔
عمران خان ایک عرصے سے سابق حکومتوں کے لیے گئے قرضوں کو ملک کی تباہی اور قرضے لینے والوں کو چور کہتے رہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد قرضے لینا ہی تمام معاشی حکمت عملیوں کی بنیاد بن جائے تو حکومت کرنا بہت آسان ہے۔ گزشتہ ساٹھ برس میں حکومتوں نے 6000 ارب کل قرضہ لیا تھا ان کی حکومت نے صرف آٹھ ماہ میں 3000 ارب کے قرضے لیے ہیں۔ حکومت کرنا بہت آسان ہے۔ روپے کی قدر گرتے گرتے امید ہے کہ ڈالر 160 تک جائے گا۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر روپے کو مارکیٹ کے رحم وکرم پر چھوڑنے کے وعدے ہوں چاہے غریبوں کو اس کا کیسا ہی خمیازہ بھگتنا پڑے تو حکومت کرنا بہت آسان ہے۔
یہود ونصاریٰ کی سازشیں پاکستان میں ہر حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بنی ہیں۔ خان صاحب نے اس کا بھی حل تلاش کررکھا ہے۔ وہ نعرہ مدینے جیسی ریاست کا لگاتے ہیں لیکن عملی طور پر وہی کچھ کرتے ہیں جو یہود ونصاریٰ کو مطلوب ہے۔ قادیانی افسران کی اہم عہدوں پر تعیناتی، خیبر پختوان خوا میں اسکول کی درسی کتابوں سے ختم نبوتؐ سے متعلق تمام اسباق اور مواد کا خاتمہ، لڑکیوں کی شادی کی عمر کا تعین۔ آسیہ مسیح کی بیرون ملک روانگی۔ حکومت کرنا بہت آسان ہے۔