اسے کہتے ہیں اسپانسر کی ٹیم

231

 

 

پاکستانی قوم ابھی ایک گیم چینجر کو بھگت رہی تھی کہ شاہد آفریدی نے کتاب گیم چینجر لکھ ماری۔ جس پر شور مچا ہوا ہے۔ لیکن وزیراعظم سے بڑا کھلاڑی کون ہے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ ختم کررہے ہیں جب کہ ان کا وژن ہے کہ علاقائی کرکٹ سے کھیل کو فروغ ملے گا۔ اب ان کے وژن میں وزیراعظم کا سابقہ بھی لگ گیا ہے تو اس وژن میں وزن بڑھ گیا ہے۔ ڈپارٹمنٹل کرکٹ تو جاری رہے یا ختم ہو انہوں نے ایک زبردست بات کی ہے کہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ میں اسپانسر اپنی ٹیم کھلا دیتاہے۔ پی ایس ایل کی مثال بھی دی کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم میں کوئی کوئٹے والا نہیں تھا لیکن سارا کوئٹہ اور بلوچستان اس کے پیچھے تھا۔ اس لیے علاقائی کرکٹ کو فروغ دینے سے کرکٹ اچھی ہوگی، معیاری کھلاڑی ملیں گے۔ خان صاحب نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ شرط یہ ہے کہ سسٹم ٹھیک ہوجائے۔ ورنہ کبھی کبھی اسپانسر اپنی ٹیم کھلادیتے ہیں۔ یہ کیا بات کہہ دی کپتان نے… اسپانسرز کی ٹیم… ارے وہ تو خود اسپانسرز کی ٹیم کہلائے جاتے ہیں۔ ان کی پوری ٹیم اسپانسرز ہی کی ٹیم تو ہے۔ جب ہی تو کہا کہ اپوزیشن کرنے کے بجائے حکومت کرنا آسان ہے۔ ظاہری بات ہے خود تو کچھ کرنا نہیں ہے جو کچھ کرنا ہے اسپانسرز کو کرنا ہے۔ اس کا اندازہ حکومت کے فیصلوں سے ہورہا ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے انتخاب سے لے کر شبر زیدی تک کپتان کو پتا ہی نہیں سلیکٹرز اور اسپانسرز کسے کیوں بھیج رہے ہیں۔ مجتبیٰ میمن کے تقرر کے اعلان تک کپتان کو پتا ہی نہیں تھا کہ وہ جونیئر ہیں۔ پھر شبر زیدی کو ایف بی آر کا چیئرمین بنانے کا اعلان کردیا گیا۔ اب جتنی بھی قانونی
شقیں ہیں وہ ہیچ، کپتان کا حکم آخری ہے… یا پھر اسپانسرز کا فیصلہ۔
اسپانسرز کا ذکر آنے پر یہ مخمصہ بھی سامنے آیا کہ اصل اسپانسر کون ہے۔ پاکستان میں تو خلائی مخلوق کا نام لیا جاتا ہے لیکن ملک میں ٹیکس لگانے والے، ٹیکس وصول کرنے والے اور بینکوں کے ریگولیٹر تو آئی ایم ایف کے آدمی آرہے ہیں تو کیا اصل اسپانسر آئی ایم ایف ہے۔ یہ مسئلہ بھی ہمارا نہیں ہے کہ آئی ایم ایف اسپانسر ہے یا عالمی ساہوکار ادارے۔ ہمارا مسئلہ تو یہ ہے کہ آمدنی کم اور نت نئے ٹیکسوں کی بھرمار۔ جو کمی تھی اسے پورا کرنے کے لیے اسپانسرز نے اسٹیٹ بینک کے لیے تحفہ بھیجا۔ مشیر خزانہ پہلے بھیجا تھا اب ٹیکس وصول کرنے کے لیے بھی موزوں آدمی بھیجا ہے۔
اسپانسرز کی ٹیم کے لیے ہمیشہ سلیکٹرز شرائط نرم کردیتے ہیں۔ چناں چہ یہاں شرائط ہی ختم کردی گئیں۔ اب اسپانسرز کی ٹیم پاکستان کی سیاست میں موجود ہے۔ معیشت پر ان کا کنٹرول ہے، صورت حال بڑی دلچسپ ہے۔ آئی ایم ایف کے نمائندے، آئی ایم ایف کے نمائندے سے پاکستان کو قرض دینے کے لیے مذاکرات کررہے تھے۔ ہر روز خبر آتی کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کا فلاں مطالبہ مان لیا، یہ خبر بالکل غلط ہوتی ہے۔ اصل خبر یہ ہونی چاہیے کہ آئی ایم ایف کے نمائندے نے پاکستان میں آئی ایم ایف کے نمائندے کو شرائط پیش کیں لیکن پاکستان میں آئی ایم ایف کے نمائندے نے کچھ رکاوٹیں ڈالیں۔ تاہم دو روز بعد وہ شرائط مان گئے۔ اس میں آئی ایم ایف ہیڈ کوارٹر کا کمال ہوگا یا کسی کے فون کا۔ بہرحال آئی ایم ایف نے آئی ایم ایف کی شرائط منظور کرکے آئی ایم ایف کے ٹیکس وصول کرنے کے ذمے دار کے ذریعے نئے ٹیکس نافذ کردیے۔ آئی ایم ایف کے نمائندہ گورنر اسٹیٹ بینک کے ذریعے مالیاتی اداروں پر کنٹرول کا آغاز ہوگیا۔ اسے کہتے ہیں اسپانسرز کی ٹیم۔
اب جب کہ اسپانسرز نے اپنی ٹیم کھلا دی ہے اور جو کھیل وہ کھیلے گی اس کے نتائج بڑے بھیانک ہوں گے۔ اس بحث میں پڑنے کی بھی ضرورت نہیں کہ اسٹیٹ بینک میں صدر بننے کے لیے کیا شرائط ہوتی ہیں۔ پہلے کسی کو پاکستان کا شناختی کارڈ بنوا کر دیا اس کے کچھ لمحوں بعد اسے ملک کے بینک کا سربراہ بنادیا۔ عمران خان نے شکوہ کیا تھا کہ سابق گورنر کے انہیں بتائے بغیر ڈالر کی شرح بڑھادی تھی یا روپے کی قدر کم کردی تھی لیکن اب عمران خان کو بتا دیا گیا ہے کہ نیا گورنر بھی یہی کرے گا۔ جب چاہے گا ڈالر کی قدر بڑھادے گا جب چاہے گا زرمبادلہ کے ذخائر گھٹا دے گا۔ جب حالات بہت خراب یا آئی ایم ایف کی ضرورت کے مطابق خراب ہوجائیں گے تو یہ بادشاہ لوگ آخری مرتبہ حلوہ پکوا کر اپنا سابقہ لباس منگوائیں گے اور اڑن کھٹولے پر نئی منزل کی طرف روانہ ہوجائیں گے۔ یہ ہوتی ہے اسپانسر کی ٹیم۔ معین قریشی تو پاکستان واپس نہیں آئے لیکن حفیظ شیخ گھوم پھر کر بار بار پاکستان آجاتے ہیں اور اب تو ایسا آئے ہیں کہ سب ہی کو گھمادیا۔ رضا باقر شاید پہلی اور آخری دفعہ پاکستان آئے ہیں۔ لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف یا (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی تو آئی ایم ایف کی ٹیم کا حصہ ہیں لیکن پورے ملک میں کوئی معاشی ماہر ایسا نہیں جو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ یہ جو ایف بی آرہے اس پورے ادارے میں بڑے بڑے جفا دری تھے وہ اب کیا کررہے ہیں۔ اس ادارے کے افسران بڑے بڑے مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالتے تھے اور کہتے تھے اصولوں پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔ لیکن آئی ایم ایف کے اسپانسرڈ فیصلوں پر ان کو بھی چپ لگ گئی۔ اور وہ جو بہت بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں جن کے فیصلے نہیں اب صرف وہ بولتے ہیں۔ وہ کیا کررہے ہیں۔ ہمیں تو اب آئی ایم ایف سے ایک اور درخواست کرنی ہے کہ کسی مجرم کے وکیل کو جو عدالت میں پیش ہوتا رہتا ہے، عدالت کا سربراہ بنوادے۔ یا مجرموں کی جانب سے جو لوگ پیش ہوتے ہیں عدلیہ ان کے حوالے کردی جائے۔ شبر زیدی کا تقرر تو اسی قسم کا ہے۔ اب تک وہ ایف بی آر کے فیصلوں کو اپنے ٹیکس چور موکل کی حمایت میں چیلنج کررہے تھے۔ اب شبر زیدی ہی شبر زیدی کے سامنے کھڑے ہو کر شبر زیدی سے شبر زیدی کا فیصلہ تبدیل کرائیں گے۔ اسپانسرز زندہ باد… کپتان مضبوط ہونا چاہیے۔