حکومت یا ملک کا آخری قرض؟

244

 

نو ماہ کے تساہل، تغافل، تذبذب اور ٹوٹتے بنتے مذاکرات بعد آخر کار آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض کی ایک اور قسط دینے پر آمادگی ظاہر کرہی ڈالی۔ چھ ارب ڈالر کا یہ قرض تین سال میں مختلف اقساط کی صورت میں ملے گا اور قرض کی ہر قسط ہمیشہ کی طرح اچھے چال چلن اور اعلیٰ کارکردگی اور ہدایات نامے پر دیانت داری سے عمل سے مشروط ہوگی۔ یہ نو ماہ پاکستان کے ایک ایسے وزیر خزانہ کو چاٹ گئے جسے موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی کا مدارالمہام سمجھا گیا تھا۔ چھ ملین ڈالر کی یہ رقم پاکستان کے معاشی دکھوں کا درماں، مسائل کا حل اور عارضوں کا علاج تو ہرگز نہیں مگر اس سے ملکی معیشت کو کچھ اعتبار اور قرار ملے گا اور دنیا پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی کئی دوسرے مالیاتی ادارے بھی پاکستان کے ساتھ مالی تعاون کرنے پر آمادہ ہوں گے۔ آئی ایم ایف کی اس آمادگی کے بعد معیشت کا رکا ہوا پہیہ چل پڑنے کی ایک موہوم سی امید بندھ چلی ہے۔
مشیر وزارت خزانہ حفیظ شیخ نے سرکاری ٹی وی پر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پانے کی خوش خبری سنائی اور اس کے بعد یہ خبر پورے میڈیا کی بریکنگ نیوز بن کر تبصروں اور تجزیوں کا موضوع بن گئی۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے معاہدے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ بجلی میں امیروں کی سبسڈی ختم کریں گے جبکہ غریبوں پر کم از کم بوجھ ڈالیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی کچھ شرائط ہمارے لیے بہتر بھی ہیں۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری قرض
ہوگا۔ اس سے پہلے سابق وزیر خزانہ بھی قرض کی اس قسط کو آخری پروگرام کہتے رہے ہیں۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پانے پر زیادہ خوشی کا اظہار نہیں کیا بلکہ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو آئی ایم ایف کے ہاں گروی رکھ دیا گیا۔ ان کا پرزور مطالبہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کو اندازہ بھی ہے اور گلہ بھی کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ان کی کلائی مروڑ کر موجودہ تبدیلی کو یقینی بنایا ہے وگرنہ تو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی پسند میثاق جمہوریت کے اوراق کے اندر ہی کہیں موجود تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکا نے قرض دینے کے لیے آئی ایم ایف
کو ماضی کے برعکس رویہ اپناتے ہوئے کوئی سفارش نہیں کی بلکہ ٹرمپ نے موجودہ حکومت بنتے ہی آئی ایم ایف کو دھمکانے کے انداز سے کہا تھا کہ چینی قرض اتارنے کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کی طرف سے قرض کی مخالفت کریں گے۔ اس صورت حال میں آئی ایم ایف کے پاس چار دن پہلے اور بعد میں جانے سے کچھ زیادہ فرق پڑنا تھا نہ پڑا۔ آئی ایم ایف کے بگڑے ہوئے تیور دیکھ کر ہی پاکستان نے دوست ملکوں کی مدد حاصل کرکے آئی ایم ایف کے در کے طواف سے بچنے کی کوشش کی تھی۔ دوست ملکوں نے جو کچھ دیا اس سے معیشت کی سانسیں وقتی طور پر تو چلتی رہیں مگر یہ مریض جاں بہ لب کا دائمی علاج ثابت نہ ہو سکی۔ امریکا نے دوست ملکوں کو بھی تعاون میں ایک حد سے نہ بڑھنے کا اشارہ دیا تھا۔ اس نامہرباں موسم اور رُت میں آئی ایم ایف کے قرض کا جو بادل ہماری معیشت کی بنجر زمین پر برسا ہے وہ بہار لانے کے لیے نہیں بلکہ سیلاب اور فلڈ برپا کرنے کی قوت وصلاحیت کا حامل بھی ہے۔ اس فضاء میں آئی ایم ایف سے عوام دوست قرض کی توقع عبث تھی۔ معاشی حالات کی بہتری کی کوششوں کو ناکام بنانے کی درپردہ مہم میں ’’حکومت بنا تو لی اب چلا کر دکھائو‘‘ کے چیلنج کا انداز بھی مستور تھا۔ اس ماحول میں قرض کی قسط تو حاصل ہو گئی مگر حکومت کے اصل امتحان کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی ادارے ’’اقتصادی غارت گر‘‘ اکنامک ہٹ مین کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ انہیں سیاسی جماعتوں کے منشور اور عوام سے کیے گئے وعدوں کی پروا ہوتی ہے نہ وہ کسی ملک کے عوام سے رشتہ داری اور ہمدردی رکھتے ہیں۔ ایک ٹھیٹھ بنیے کی طرح انہیں اپنی رقم سے، اس کے سود سے اور قسط کی واپسی سے دلچسپی ہوتی ہے۔ وہ اپنے پروگرام پر عمل درآمد میں دلچسپی رکھتے ہیں خواہ اس سے عوام کا معاشی کچومر ہی کیوں نہ نکلے۔ یونان کے معاشی بحران میں عالمی مالیاتی ادارے یہی کردار ادا چکے ہیں۔ مصر میں بھی یہ عوام کی چیخیں نکال چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کی مثال ایک بے رحم جراح کی ہے جو مریض کا علاج اپنے نشتر سے کرتا ہے۔ آئی ایم ایف کے اس زہر کو تریاق میں کیسے بدلا جا سکتا ہے؟ موجودہ حکمرانوں کا اصل امتحان ہے۔ یہ کہنا کوئی بڑی بات نہیں کہ یہ موجودہ حکومت کا پہلا اور آخری قرض ہے مزہ تو جب ہے کہ یہ پاکستان کا آخری قرض ہو۔ حکومتوں کے اپنے دن گزارنے کے لیے تو آئی ایم ایف کا ایک بلکہ آدھا پروگرام ہی کافی ہوتا ہے مگر ملک کا عارضہ اپنی جگہ قائم اور موجود رہتا ہے۔