خیبر ٹیچنگ اسپتال میں ڈاکٹروں پر تشدد انتہائی شرمناک ہے، مشاق خان

109

 

پشاور (وقائع نگار خصوصی) امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ خیبر ٹیچنگ اسپتال میں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ڈاکٹروں پر تشدد کیا گیا۔ ڈاکٹروں کی آواز کو بزور طاقت دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ واقعہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے، بدترین تشدد کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ پاکستان کی جمہوری تو کیا مارشل لائی حکومتوں میں بھی اس طرح کی فسطائیت کی مثال نہیں ملتی۔ وزیر صحت اور وزیراعلیٰ اس واقعہ کے براہ راست ذمے دار ہیں۔ احتجاج کا اپنا حق استعمال کرنے والے ڈاکٹروں سے احتجاج کا انتقام لیا گیا ہے۔ ڈاکٹروں کا احتجاج اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ ایم ٹی آئی ایکٹ کے خاتمے کے لیے ہے جس نے اسپتالوں کو ویران اور غریب عوام کو خوار کردیا ہے۔ ریجنل ہیلتھ اتھارٹی اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کے نام سے حکومت صحت کے شعبے کو پرائیویٹائز کرنا چاہ رہی ہے۔ پرائیویٹائزیشن سے ریاست اپنے کندھوں سے صحت کا بوجھ اتارنا چاہتی ہے۔ اسپتالوں اور صحت کے مراکز کو سرمایہ داروں کو فروخت کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ اس کیخلاف سینیٹ اور میڈیا سمیت ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے۔ عدالت عظمیٰ اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ویڈیو کو بنیاد بنا کرواقعہ کیخلاف سوموٹو ایکشن لیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کے ٹی ایچ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ضیا الدین اور دیگر ڈاکٹروں کی عیادت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ 80 سالہ نوشیروان برکی نے خیبر پختونخوا کی ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ ان کا سوائے عمران خان کے کزن ہونے کے اور کوئی میرٹ نہیں ہے۔ حکومت پاکستان کے صحت کے مسائل کے لیے امریکی حل ڈھونڈنا چاہ رہی ہے۔ امریکن سلوشن نے ہماری اکانومی کا بیڑا غرق کیا ہے تو وہ صحت کے مسائل کا حل کیسے ہوسکتا ہے، ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ ایم ٹی آئی ایکٹ کو ختم اور آر ایچ اے اور ڈی ایچ اے کو ہر صورت واپس ہونا ہوگا۔ صحت کے شعبہ میں کسی قسم کی اصلاحات ڈاکٹروں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر نامنظور ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر اس تشدد کا بدلہ غیر قانونی ذرائع سے نہ لیں بلکہ اس تشدد اور ظلم کا انتقام جمہوری طریقے سے لیں۔ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے جمہوری حق کو استعمال کرنا بہترین انتقام ہے۔ ڈاکٹر پُرامن اور قانون کے دائرے میں رہیں اور اپنے احتجاج کو مزید توانا کریں۔ سیاسی جماعتیں سیاست سے بالاتر ہوکر اس واقعہ کے خلاف نکل آئیں۔