متحدہ قومی موومنٹ کے میئر اور حکومت سندھ کی جانب سے کراچی کے ترقیاتی فنڈز پر لڑائی کی خبریں تو پرانی ہیں لیکن اب انکشاف ہوا ہے کہ کراچی کے ترقیاتی فنڈز میں اربوں روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔ طریقہ واردات وہی پرانا والا ہے۔ جعلی ٹینڈرز، جعلی ٹھیکیدار، جعلی بل اور اصلی ادائیگی۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ ادائیگیاں سندھ حکومت کے محکمہ روڈ اینڈ ٹرانسپورٹ کے ایگزیکٹو انجینئر نے کی ہیں، یہ ادائیگیاں بوگس ٹینڈرز کے ذریعے کی گئیں۔ کراچی کی سڑکوں کا حال دیکھ کر بھی صاف نظر آتا ہے کہ ترقی تو دور کی بات ہے مرمت اور پیچ ورک بھی نہیں ہورہا۔ یہ جو سڑکیں کاٹنے کا دھندا ہے اس میں بھی اربوں روپے کمائے جاتے ہیں، سڑک کی کٹنگ کا اجازت نامہ ہی اس وقت ملتا ہے جب روڈ کٹنگ چالان بینک میں جمع کرادیا جائے۔ لیکن جعلی چالان کے ذریعے اجازت نامے جاری کردیے جاتے ہیں اور روڈ کٹنگ کی مد میں رقم کی بندر بانٹ کرلی جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ شہر کھنڈر بن جاتا ہے۔ یہی حال کراچی کا ہوا ہے، افسوسناک بات یہ ہے کہ بلدیہ کراچی کو ملنے والے اربوں روپے غیر متعلقہ ادارے نے خرچ کر ڈالے اور صبح شام اختیارات کا رونا رونے والے میئر اور ان کی ٹیم کو پتا ہی نہیں چلا کہ کراچی کے اربوں روپے کوئی اور ہڑپ کررہا ہے۔ اچھا اگر ترقی نہیں ہورہی تھی تو کم از کم فنڈز کا ناجائز استعمال تو روکا ہوتا۔ لیکن اصل مسئلہ یہی فنڈز ہیں، ان فنڈز کو سندھ حکومت بھی اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے اور بلدیہ کراچی بھی اپنے پاس رکھ کر اپنی مرضی کے ٹھیکے دے کر مال بنانا چاہتی تھی۔
بلدیہ کراچی کے میئر کے اس دعوے کو مان بھی لیا جائے کہ ان کو اختیارات نہیں ملے تو پھر بھی اس سوال کا کیا جواب ہے کہ انہیں کراچی میں ترقی ہوتی بھی نظر نہیں آتی اور فنڈز بھی خرچ ہوتے رہے۔ اس کے دو ہی مطلب ہوسکتے ہیں کہ یا تو اختیارات کے علاوہ اہلیت بھی نہیں ہے یا پھر سب معلوم ہے اور اپنا حصہ خوب سمیٹا ہوگا۔ آخر الذکر بات زیادہ قرین قیاس لگتی ہے کیوں کہ ٹینڈر کے اجرا سے بل کی ادائیگی تک ٹھیکیداروں سے بھتے لینے میں یدطولیٰ رکھنے والوں کو یہ کیسے معلوم نہیں ہوگا کہ کب کس منصوبے کا ٹھیکا جاری ہوا ہے اور یہ کہ وہاں کام بھی نہیں ہورہا۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس جعلسازی میں بلدیہ کراچی کی موجودہ ٹیم بھی ملوث ہوگی، ابھی تو تحقیقات شروع ہوئی ہیں اور حکومت سندھ کا ایگزیکٹو انجینئر منظر پر آیا ہے۔ لیکن پس منظر میں بلدیہ کراچی کے افسران بھی ہیں۔ کئی برس سے یہ توجہ دلائی جارہی تھی کہ کسی نئے منصوبے کا حساب تو نہ لیا جائے لیکن معمول کے جو فنڈز بلدیہ کراچی کے پاس ہیں وہ کہاں جاتے ہیں۔ جتنے خاکروب وغیرہ ہیں جو گاڑیاں ان کے پاس ہیں اور جتنا پٹرول و ڈیزل ان کے لیے جاری ہوتا ہے یہ سب کہاں جاتا ہے۔ ان لوگوں کی تنخواہیں جاری ہوتی ہیں، خاکروبوں کی رجسٹرڈ تعداد اور ڈیوٹی پر حاضر افراد کے فرق کو سامنے رکھا جائے تو کروڑوں روپے اس مد میں ہضم ہوتے نظر آتے ہیں۔ کئی مرتبہ ٹریفک وارڈنز کے بارے میں سوال اٹھایا جاچکا لیکن بلدیہ نے بھی کوئی جواب نہیں دیا اور حکومت سندھ بھی اس سے بے پروا ہے۔
تازہ خبر میں گزشتہ دس برس کا حوالہ دیا گیا ہے کہ اس عرصے میں جعلی ٹینڈرز اور جعلی بلوں کے ذریعے اربوں روپے ٹھکانے لگائے گئے۔ ابھی تو بلدیہ کے افسران کے خلاف کارروائی کے امکانات کی خبر ہے اس خبر کے بعد بلدیہ کراچی کے افسران میں بے چینی ہے لیکن ایک اطمینان بھی ہے، اس حوالے سے اطمینان یوں ہے کہ ایک
مشہور جملہ سرکاری افسران میں کہا جاتا ہے کہ دیکھا جائے گا۔ پہلے کون سا کوئی پکڑا گیا ہے۔ اب پکڑے جاتے ہیں، لیکن کئی کئی سال مقدمات چلتے رہتے ہیں، ضمانتیں چلتی رہتی ہیں، کرپشن کیا، قتل کے مجرم ضمانتوں پر معزز رکن اسمبلی بنے ہوئے اور عوامی عہدے پر بیٹھے ہیں۔ لہٰذا اطمینان تو رہے گا۔ یہ بات بھی اب انکشاف نہیں ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کی رقوم کو جعلی چالان اور جعلسازی کے ذریعے ہڑپ کیا جاتا ہے۔ یہ کام دس سال سے نہیں کئی عشروں سے ہورہا ہے۔ اس میں تیزی ایم کیو ایم کے آنے کے بعد آئی۔ جب انہوں نے ٹھیکا دینے کے لیے 25 فی صد رقم ایڈوانس لینا شروع کی اور 25 فی صد چیک کی ادائیگی کے لیے مختص کردی۔ اس کے بعد منصوبے اور ترقی پر خرچ کیا ہوگا اور ٹھیکیدار کو کیا ملے گا۔ یقینا پچیس فی صد رقم منصوبے پر لگی ہوگی۔ ایسی صورت میں سڑکیں بھی روز ٹوٹیں گی اور پل متاثر ہوں گے۔ اس خبر کے نتیجے میں کسی افسر کے خلاف کوئی کارروائی ہو یا نہ ہو… یہ ضرور ہوا کہ بلدیہ کراچی کی نااہلی سامنے آگئی۔ انہیں کسی چیز کا علم نہیں کہ ان کی ناک کے نیچے کیا کاروبار ہوتا رہا ہے۔ جو نااہل لوگ صرف اختیارات کا رونا رو رہے ہوں انہیں پتا ہی نہیں چلا کہ کراچی کے فنڈز کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ پھر تو معاملہ اختیارات کی کمی کا نہیں، اہلیت کی کمی کا ہے۔