نہ لڑی جانے والی جنگ کی قیمت

224

 

 

چند دن قبل نریندر مودی کا ایک مضحکہ خیز انٹرویو بھارتی میڈیا میں زیر بحث رہا جس میں نریندر مودی نے فلسفیانہ انداز میں بالاکوٹ واقعے کا سہرہ اپنے سرجاتے ہوئے کہا ’’میں نے سوچا موسم خراب ہے اور رے ڈار بھی کام نہیں کر رہے ہوں گے اس لیے یہ حملے کا مناسب وقت ہے‘‘۔ وزیر خارجہ شاہ محمو قریشی نے اسمبلی میں مودی کے اس دعوے کا مذاق اُڑانے کے انداز میں کہا کہ مودی جی یہ تو خیریت گزری کے رے ڈار نہیں چل رہے تھے اور ہم نے دوطیارے مارگرئے اگررے ڈار چل رہے ہوتے تو سوچیے پھر کیا ہوتا؟۔ نریندر مودی اس عرصے میں ایک ایسے خودساختہ فاتح بن کر اُبھرے ہیں جن کی فتح خود ان کے سوا کسی کو نظر آتی ہے اور نہ اس فتح کا کوئی گواہ موجود ہے۔ حد تو پاکستان سے مخاصمت کی ڈور میں بندھے ہوئے ممالک اور ذرائع ابلاغ بھی ایسی کسی فتح کا وجود تلاش کرنے سے قاصر ہوکر اسے مودی کی ایک خوش فہمی قرار دے رہے ہیں۔
بھارت کا ’’ہمپٹی ڈمپٹی‘‘ فتح کی ایک ایسی اُڑن طشتری میں محوِپرواز ہے جو حقیقت سے دور فقط تصوراتی ہے۔ ایک نہ ہونے والی جنگ کے اثرات سے یہ خطہ اور دنیا ابھی تک باہر نہیں آسکے۔ اس کا ثبوت برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک چونکا دینے والی رپورٹ ہے جس میں پلوامہ حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع ہونے والی کشیدگی کے نتیجے میںمحض ایک شعبے یعنی بین الاقوامی ہوابازی پر پڑنے والے مضر اثرات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بالاکوٹ کے ناکام حملے کے بعد پاکستان نے اپنی فضائی حدود بند کردیں۔ بعد میں یہ حدود جزوی طور پر کھول دی گئی مگر بھارت آنے جانے کے لیے فضائی حدود بند ہیں اور بھارت نے یہی قدم پاکستان آنے جانے والی پروازوں کے متعلق اُٹھایا ہے۔ پاکستان کی فضائی حدود کی بندش سے سب سے زیادہ بھارت متاثر ہورہا ہے مگر افغانستان سمیت دنیا کے چھوٹے بڑے ممالک کسی نہ کسی حد تک اس صورت حال کے ضرررساں اثرات کی زد میں ہیں۔ ملکوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ کرائے بڑھ گئے ہیں مسافروں کے سامان کے لیے نئے اصول وضع ہو رہے ہیں۔ بہت سے ملکوں کی پروازیں یا تو بند ہو گئی ہیں یا پروازوں کی تعداد کم کر دی گئی ہے۔ پہلے جو پروازیں براہ راست اپنی منزل پر پہنچتی تھیں اب انہیں ایندھن بھرنے کے لیے کسی اور ملک میں رکنا پڑتا ہے۔ اس بندش سے روزانہ 350پروازیں کسی نہ کسی طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ جس سے ہوابازی کی بین الاقوامی صنعت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ بھارت سے یورپ جانے والی پروازوں کے فاصلے میں 913کلومیٹر کا اوسط اضافہ ہوا ہے جو مجموعی سفر کے بائیس فی صد کے قریب ہے۔ لندن سے دہلی آنے والے مسافر تین سو پاونڈ اضافی دینے پر مجبور ہیں۔ افغانستان کی اکثر پروازیں بند ہو گئی ہیں یا کمی کا شکار ہیں۔ یہ رپورٹ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ جنگ اور کشیدگی کس طرح قوموں کے مزاج، معاش، کلچر سمیت پر پہلو پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ اس حقیقت کا اظہار بھی ہے کہ امن کا کوئی متبادل اور نعم البدل نہیں۔ امن کے اثرات بھی انسانی زندگیوں اور سماج پر مرتب ہوتے دیر نہیں لگتی اور جنگ کے اثرات بھی سماج اور چہروں پر اپنا بھیانک نقش چھوڑنے میں وقت نہیں لگاتے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی نہیں صرف جنگ کا ماحول بنا۔ حملے کے خدشات اور خطرات اُبھرے اور دوریوں اور خلیج کا ایک نیا سلسلہ چل پڑا۔ دونوں ملکوں کی پیٹھ پر ماضی کا بوجھ ہی کیا کم تھا اس پر تلخ واقعات کا نیا بوجھ بھی لاد دیا گیا۔ اسی سے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اگر دوایٹمی ملکوں میں باقاعدہ جنگ ہوتی جس کی حماقت انگیز اور ہلاکت خیز منصوبہ بندی نریندر مودی کیے بیٹھے تھے تو اس کے اثرات کی کرچیاں چننے میں کتنے زمانے گزرجاتے اور کتنی ہی نسلوں کے پائوں ان کرچیوں سے لہو لہو ہو کر رہتے۔ اب حالات سے تنگ بھارتی شہریوں کو بھی اندازہ ہورہا ہے کہ جنگ کسی کی خالہ نہیں ہوتی یہ اپنی قیمت کہیں کم اور کہیں زیادہ وصول کرتی ہے۔ موجودہ دور میں جنگ ایک مہنگا شوق ہو کر رہ جاتا ہے۔ پہلے جنگ ملکوں اور قوموں کا خون نچوڑ لیتی ہے پھر امن کے نام پر ان کی ہڈی بوٹی نوچ لی جاتی ہے۔ اس طرح خون کے دھبے دھونے کے لیے لاتعداد برساتیں بھی کم پڑتی ہیں۔ دوایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کھیل کے دائرے سے انچ بھر باہر نکل گئی تو ہیرو شیما اور ناگاساکی کے دل دہلا دینے والے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انسانیت کا دامن یوں تار تار ہونے کے یہ واقعات اور مناظر صدیوں پرانی بات نہیں چند دہائیاں دور کی بات ہے۔ اس طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان نہ لڑ ی جانے والی جنگ جسے محض کشیدگی ہی کہا جا سکتا ہے انسانوں کی زندگی اور بہت سے ممالک کے لیے مشکلات کا پیغام چھوڑ گئی۔
کشیدگی کا گراف تو شاید کم ہو گیا ہے اور باقاعدہ حملوں اور تصادم کے خطرات ٹل رہے ہیں مگربہت سے ملکوں کے لوگ اور بھارتی شہری اب بھی اس کشیدگی کی قیمت چکا رہے ہیں۔ نریندر مودی دوبارہ برسر اقتدار آتے ہیں تو ان کے پاس واپسی کی کوئی راہ باقی نہیں کیونکہ وہ انتخابی مقاصد کے لیے پاکستان اور مسلمان دشمنی کی جو فضاء بنا چکے ہیں وہ ان کے پائوں کی زنجیر بن کر رہ جائے گی اور وہ اپنی سخت گیر سوچ اور خیالات سے یوٹرن لینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ مودی اپنی سخت گیری کے باعث جائے ماندن سے محروم ہو رہے ہیں کیونکہ ہندوتوا انہیں پس قدمی کی آسانی سے اجازت نہیں دے گی مگر حالیہ کشیدگی میں پاکستان کی طرف سے جوابی ردعمل نے انہیں پائے ماندن کی سہولت سے بھی محروم کر دیا ہے۔ بھارت کو معلوم ہو گیا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں پاکستان کے لیے ایک اور ’’امریکا‘‘ نہیں بن سکتا۔ پاکستان اصل امریکا کا بوجھ اپنے کندھوں سے بہت مشکل سے اُتار چکا ہے چہ جائیکہ ایک اور امریکا کو آسانی سے پروان چڑھنے دے