پہلے تو گورنر اسٹیٹ بینک نے حکومت کو اطلاع دیے بغیر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گھٹا دی تھی اس لیے باجوہ صاحب کو فارغ کردیا گیا۔ شکایت بھی بجا تھی کہ حکومت کو تو معلوم ہونا چاہیے کہ روپے کی قدر کم کی جارہی ہے۔ لیکن گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا تھا کہ میں نے حکومت کو مطلع کردیا تھا۔ تاہم وزیراعظم نے یہ وضاحت تسلیم نہیں کی۔ اب جب کہ کرسٹینا لوگارڈ کا پسندیدہ افسر اسٹیٹ بینک کا گورنر بن گیا ہے تو اس کی ذمے داریوں ہی میں شامل کردیا گیا ہے کہ جب چاہے جتنا چاہے روپیہ گرادے۔ اس پر تو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کیوں کہ کرسٹینا لوگارڈ نے کہا ہے کہ اچھا افسر ہے۔ لیکن یہ کیا ہورہا ہے بدھ اور جمعرات کو کس نے روپے کی قدر گرادی۔ دو دن میں ڈالر 147 تک پہنچادیا گیا۔ اب کیا منی چینجرز بھی تبدیل کریں گے۔ ظاہری بات ہے ایسا نہیں کیا جاسکے گا۔ بلکہ گیم چینجرز نے اپنا گیم کھیلا، منی چینجرز اپنا گیم کھیل رہے ہیں لیکن سب سے زیادہ خراب بات یہ ہے کہ حکومت کو پتا ہی نہیں چلتا کہ گیم کون اور کیا کھیل رہا ہے۔ اب ڈالر 147 تک پہنچادیا گیا۔ آئی ایم ایف کی پوری ٹیم بیٹھی سر جوڑے اور دھمکی دی کہ سخت کارروائی کریں گے۔ بدھ کو تو ڈالر 146 تک پہنچا کر 144 پر واپس لے آئے لیکن جمعرات کو 147 پر پہنچادیا۔ دھمکی بے اثر… کرلو جو کرنا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ ایک جانب آئی ایم ایف کا ہوا تھا کہ یہ کوئی بہت خطرناک چیز ہے سب ہی خوفزدہ رہتے تھے۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ آئی ایم ایف کی پوری ٹیم بیک وقت ملک میں موجود ہے۔ لوگ دیکھ رہے ہیں ڈاکٹر حفیظ شیخ کو… یہ ہوتا ہے آئی ایم ایف کا نمائندہ… کبھی مشرف، کبھی زرداری، کبھی (ن) لیگ، کبھی پی ٹی آئی، پھر لوگوں نے دیکھا کہ کرسٹینا لوگارڈ نے جس کی تعریف کی وہ گورنر اسٹیٹ بینک بن گیا، اسے دیکھ کر بھی پتا چلا کہ یہ ہوتا ہے آئی ایم ایف کا نمائندہ، لیکن سب سے زیادہ سکون ملا ایف بی آر کے چیئرمین کو دیکھ کر سارا ملک عش عش کر اُٹھا کہ اسے کہتے ہیں ریلو کٹا… اِدھر بھی شبر زیدی، اُدھر بھی شبر زیدی… اِدھر بھی آئی ایم ایف اُدھر بھی آئی ایم ایف۔ گویا پوری معاشی ٹیم ریلو کٹا بن گئی ہے۔ اس ریلو کٹا معاشی ٹیم کو دیکھ کر قوم میں آئی ایم ایف کا جو بھی خوف تھا وہ نکل گیا ہے۔ اگرچہ رضا باقر کی پاکستان میں کارگزاریاں ابھی سامنے نہیں آئی ہیں لیکن حفیظ شیخ اور شبر زیدی تو کھلی کتابیں ہیں۔ اب ہر ایک مطمئن ہے کہ جو لوگ ہمیں اصول سکھانے چلے ہیں، وہ خود اتنے بے اصول ہیں تو ان کے ساتھ مک مکا ہوسکتا ہے۔ بات صرف پی ٹی آئی کی معاشی ٹیم کی نہیں ہے بلکہ پی ٹی آئی کے سربراہ اور مجموعی طور پر پوری پارٹی کی ہے یہ پارٹی مسلم لیگ کی ایمنسٹی کے اعلان پر اسے چوروں کی سرپرستی قرار دے رہی تھی اور سڑکوں پر آنے کا اعلان کررہی تھی۔ اس کے سربراہ عمرن خان نے کہا تھا کہ کل ہی اسمبلی میں جا کر اس کے خلاف قرار داد لائوں گا۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ سارا سال چوری کی اور آخر میں ایمنسٹی مل گئی۔ ڈاکوئوں کو یہ تحفظ نہیں چلے گا۔ (ن) لیگ کی ایمنسٹی بھی چل گئی اور ڈاکوئوں کو بھی تحفظ مل گیا۔ لیکن یہ کیا کہ اب پی ٹی آئی نے بھی وہی ایمنسٹی دے دی۔ اس پر یہ سوال بجا طور پر کہا گیا کہ ہماری ایمنسٹی حرام اور پی ٹی آئی کی حلال… یہ کیا ہے۔ اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ
یہ جناب شیخ کا فلسفہ عجیب سارے جہاں سے
جو وہاں پیو تو حلال ہے، جو یہاں پیو تو حرام ہے
اگرچہ عمران خان شیخ نہیں نیازی ہیں لیکن ان کے مشیر خزانہ تو شیخ ہیں اور ڈار اور شیخ کا ایک دوسرے سے مکالمہ بن سکتا ہے کہ ڈار یا (ن) لیگ کی ایمنسٹی حرام کیونکر ہوگئی اور حفیظ شیخ کی حلال کیوں ہے۔ لیکن سوال بہرحال وزیراعظم سے ہے کہ جو پہلے غلط اور حرام تھا اب وہ صحیح اور حلال کیسے ہوگیا۔ کوئی ایک بات ہو تو بتائی جائے۔
گزشتہ کالم میں ہم نے لکھا تھا کہ آئی ایم ایف سے آئی ایم ایف کے مذاکرات، آئی ایم ایف نے آئی ایم ایف کی شرائط مان لیں۔ اب آئی ایم ایف نے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق اقدامات شروع کردیے ہیں۔ آئی ایم ایف نے ڈالر کو آزاد کرنے کا حکم دیا سو، اس پر عمل شروع ہوگیا۔ اُدھر سے کرسٹینا نے افسر بھیجا، اِدھر ڈالر آزاد ہوگیا، اور ایسا آزاد ہوا کہ اب اُڑان ہی بھرے جارہا ہے۔ مسئلہ ڈالر کا آزاد ہونا نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ جب اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر کم کی تو حکومت کو پتا نہیں چلا، اب سٹے باز ڈالر کو اُڑا رہے ہیں تو حکومت کو پتا نہیں چل رہا کہ ڈالر کی قدر کون بڑھا رہا ہے۔ حفیظ شیخ تو خاموش ہیں لیکن مشیر اطلاعات اور وزیر خارجہ اس پر خوب تبصرے کررہے ہیں۔ اب یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں کہ وزیر خارجہ کو معاشی امور کا کیا پتا۔ انہیں تو خارجہ امور کا بھی نہیں پتا۔ دراصل اب صحیح معنوں میں ریلوکٹا معاشی ٹیم دونوں جانب سے کھیل رہی ہے۔ ہمیں خان صاحب کے الیکشن سے قبل کی تقریروں میں کیے جانے والے دعوے اس وقت ہوائی لگتے تھے لیکن جب سے آئی ایم ایف آئی ہے اور قوم کے چہروں پر ہوائیاں ہیں اس وقت سے ان کی ہوائیاں حقیقت بنی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ اقتدار سنبھالتے ہی دنیا بھر سے پیسا آئے گا۔ سو وہ آگیا۔ آئی ایم ایف کے ذریعے سہی۔ آیا تو سہی۔ غلط ہو یا صحیح۔ وزیراعظم کہتے تھے غیر ملکی سرمایہ کاری ہوگی، سو وہ بھی آئی ایم ایف نے کردی، اب وزیراعظم اطمینان سے ہیں ان کو ریلوکٹا معاشی ٹیم مل گئی ہے، مذاکرات کی ٹینشن، نہ امداد معطل ہونے کا خدشہ، ہر مشکل یہی ٹیم پیدا کرے گی پھر دوسری طرف آکر اس مشکل کو خود ہی حل کرے گی۔ خان صاحب کو اب ریلوکٹوں کی افادیت کا بھی پتا چل گیا ہوگا۔