زمانہ بدل چکا ہے۔ اب والدین بھی اپنے بچوں پر ہمارے دور سے کہیں زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اسکولوں میں بھی مار دھاڑ سے بھرپور فلمیں چلنا کافی حد تک بند ہو گئی ہیں۔ ہمارے زمانے میں جب اسکول لگا کرتا تھا تب بھی گھر سے لیکر اسکول تک ہم ہی ہوا کرتے تھے اور جب اسکول سے چھٹی ملتی تھی تو تب بھی اسکول سے لیکر گھر تک ہم ہی ہوا کرتے تھے لیکن اب عالم یہ ہے کہ جن جن راستوں، گلیوں شاہراہوں پر اسکول قائم ہیں، اسکول کے اوقات میں وہاں سے گاڑی تو کیا پیدل گزرنا تک جان جوکھم کا کام بن کر رہ گیا ہے۔ یہ ماضی کے اسی دور کی بات ہے جب اسکول ہو یا گھر، جب استاد یا والدین کا ہاتھ اٹھ جاتا تھا تو ایک جان ہی تھی جو بدن سے نکلنے سے رہ جایا کرتی تھی۔ زناٹے دار تھپڑ کے ساتھ ہی ایک تیز چیخ کی بلند ہوتے ہی ایک اور زوردار تھپڑ اس لیے کھانا پڑ جاتا تھا کہ پٹنے کے بعد آواز کیوں نکلی، لہٰذا تیسرے زناٹے دار وار سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے یہ ضروری ہوجاتا تھا کہ خواہ بدن سے جان ہی کیوں نہ نکلنے کے لیے بیتاب ہو، حلق سے نکلنے والی سخت کراہ کا گلا سینے کے اندر ہی گھونٹ دیا جائے۔
اگر ماضی کے اس رویے پر غور کیا جائے تو اسکول میں یا گھر میں ہونے والے اس سلوک کو بدمعاشی ہی کہا جاسکتا ہے جس سے آج کل کے بچے تو بچے ہوئے ہیں لیکن طاقتور ممالک کے آگے کمزور ممالک ابھی تک اسی دور جہالت کا شکار ہیں۔ ہر وہ ملک جو عالمی دہشت گرد امریکا کی پالیسی اپنانے سے گریز کرنا چاہتا ہے امریکا اس پر چڑھ دوڑنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور اگر امریکا کی اس جارحیت کے خلاف وہ ملک آواز احتجاج بلند کرتا ہے تو پھر اس کے سروں پر بموں کی بارش ہونے میں دیر ہی نہیں کی جاتی اور بموں کی ہر دھمک کے ساتھ ایک تنبیہہ بھی سنائی دیتی ہے کہ خبر دار آواز نہ نکلے ورنہ اس کے نتائج مزید خوفناک صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ عراق اور افغانستان اس کی جیتی جاگتی تصویر ہیں جن کو کھنڈرات میں محض اس لیے تبدیل کر دیا گیا کہ وہ اطاعتِ امریکا سے انکاری تھے۔
دنیا میں ہر آزاد و خود مختار ملک کا یہ انسانی، سیاسی اور قانونی حق ہے کہ وہ اپنے لیے جو چاہے پالیسی بنائے۔ اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جس قسم کے بھی ہتھیار بنانا چاہے بنائے اور اپنی مرضی و منشا کے مطابق آئین و قانون کو نہ صرف وضع کرے بلکہ اپنی حدود کے اندر اپنے بنائے ہوئے اصول و قواعد کے مطابق اپنے زندگی گزارے۔ بظاہر دنیا کے ہر مذہب ملک کا یہی کہنا ہے لیکن امریکا گزشتہ کئی دھائیوں اس جنون میں مبتلا دکھائی دیتا ہے کہ وہ پوری دنیا کو اپنی مرضی و منشا کے مطابق چلائے گا اور جو ملک ایسا کرنے سے انکار کرے گا اس کے لیے عرصہ حیات اتنا تنگ کرکے رکھ دیا جائے گا کہ اسے آزادی کے ساتھ سانس تک لینا دشوار ہوجائے۔ اس کی تازہ ترین مثال ایران ہے جو خمینی انقلاب کے بعد سے تا حال امریکا کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ خمینی انقلاب کے بعد سے آج تک اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ ایران نے کسی بھی ملک کے خلاف کسی جارحیت کا ارتکاب کیا ہو جبکہ اس کے برعکس عراق کی جانب سے اس پر ایک بہت بڑی جنگ مسلط کی جاچکی ہے۔ امریکا کے تعلقات ایران کے ساتھ شاہ رضا شاہ پہلوی تک تو بے مثل تھے لیکن خمینی حکومت کے قیام کے بعد سے اب تک امریکا کی ہر پالیسی ایران کے خلاف ہی رہی
ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران کو اقتصادی لحاظ سے شدید دباؤ کا سامنا رہا ہے لیکن ایران تا دم تحریر امریکا کا دباؤ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ گزشتہ چند ماہ سے امریکا ایران کے گرد اپنا دائرہ تنگ سے تنگ کرتا چلا آرہا ہے اور اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ عراق اور افغانستان کی طرح اس پر جنگ کے بادل بھی منڈلانے لگے ہیں۔ امریکا کا ایک جدید ترین جنگی بحری بیڑا خلیج کی جانب رواں دواں ہے جو ہر قسم کے جنگی ہتھیاروں سے لیس ہے۔
ادھر امریکا کے صدر ٹرمپ کا لب و لہجہ بھی ایران کے لیے روز بروز خونخوارانہ ہوتا جارہا ہے۔ بی بی سی کے جوناتھن مارکس جو دفاعی و سفارتی امور کے تجزیہ نگار ہیں، رپورٹ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکا اور ایران کی کشیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ امریکی صدر کا بیانیہ یہ ہے کہ ’’ایران سے کسی بھلے کی توقع نہ کریں۔ امریکی جنگی تیاریاں ایران کی جانب سے خطے میں امریکی مفادات کو نشانہ بنانے کی اطلاعات کے ردعمل میں ہیں‘‘۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ خطے میں امریکی مفادات کو ایرانی خطرے کا تو ذکر کرتی ہے لیکن ابھی تک کسی مخصوص خطرے کی کوئی تفصیل فراہم نہیں کی ہے۔ یہ بیانیہ ٹرمپ انتظامیہ کا پسندیدہ ہے۔ اس کے برعکس ایران کا بیانیہ یہ ہے کہ ’’خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا ذمے دار صرف اور صرف امریکا ہے‘‘۔ دیکھا جائے تو ایران امریکا کے سامنے ایک بے حقیقت سا ملک ہے لیکن امریکا اس کے ایٹمی پروگرام سے خوف زدہ نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کئی بار ایران کو اس سے باز رہنے کی تاکید کرتا رہا ہے۔ فی الحال لگتا ہے کہ ابھی ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کے مرحلے سے کافی دور ہے لیکن وہ کسی بھی سلسلے میں امریکا کی ہر بات کو
مِن و عن تسلیم کرنے کے لیے بھی آمادہ نہیں۔ امریکا کا عذر کوئی بھی ہو، وہ بہر صورت ایران کو اپنے دباؤ میں لانا چاہتا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ کسی نہ کسی بہانے ایران مخالف امریکی اہلکار ایران میں اقتدار کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ اگر ایران پر امریکی معاشی دباؤ کے باوجود ایران میں مذہبی طبقے کے اقتدار کا خاتمہ نہیں ہوتا تو یہ امریکی اہلکار ایران کے خلاف فوجی حملے کے امکان کو رد نہیں کرتے۔
بات وہیں آکر ختم ہوتی ہے امریکا چت بھی اپنی اور پٹ بھی اپنی پر اترا ہوا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت وہ ساری الزام تراشیاں ہیں جو ایران کے متعلق گھڑی جارہی ہیں اور ان کا سہارا لیکر جنگ کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ امریکا کے ایران کے خلاف جو ارادے ہیں وہ طشت از بام اس بات سے بھی ہوتے ہیں کہ امریکا نے خطے میں اپنی فوجی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے طیارہ بردار بحری بیڑہ خلیج فارس روانہ کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ اس نے ایران میں غیر ضروری سفارتی عملے کو ایران سے نکال لیا ہے۔ یہاں ایک اور صورت حال کا سامنا بھی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ ممکن ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کے اتحادی، اسرائیل اور سعودی عرب شاید تالیاں بجا رہے ہوں لیکن امریکا کے یورپی اتحادی حالات سے خوش نہیں ہیں۔ اسپین، جرمنی اور ہالینڈ نے کشیدہ صورتحال کے پیش نظر خطے میں امریکا کے ہمراہ اپنی فوجی کارروائیاں معطل کر دی ہیں۔ آنے والے چند ہفتوں میں کیا ہونے والا ہے، اس کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہی ہوگا لیکن جو بات سامنے کی ہے وہ یہی ہے کہ امریکا کا رویہ میرے زمانے کے اس دور کے استادوں اور بزرگوں جیسا بنا ہوا ہے جو مارتے بھی تھے اور رونے بھی نہیں دیتے تھے اور یہ سب محض اس لیے ہے کہ ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘۔ لہٰذا اگر مسلمانوں کو دنیا میں عزت کے ساتھ جینا ہے تو طاقتور بننا ہوگا ورنہ اسی طرح دنیا مسلمانوں کو ذلیل و رسوا کرتی رہے گی۔