۔12مئی 2019۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے۔ ممکن ہے آپ کو مبالغہ لگے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم پھر شکست کھا گئے ہیں۔ 71ء کے بعد ہمیں ایک مرتبہ پھر فتح کر لیا گیا ہے۔ عالمی اقتصادی دہشت گردوں نے ہمارا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ معاشی جنگ جوئوں کے سامنے ہم نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اقتصادی امور کے ماہر اور ایرو ایشیا گروپ کے بانی اِیان ایمر نے کہا تھا ’’امریکا ممالک کے ساتھ روایتی جنگ میں الجھنے کے بجائے ان کے اقتصادی فیصلوں اور معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور پھر اس اقتصادی حملے کے نتیجے میں کسی ہدف ملک کی اقتصادیات کو تباہ کردیتا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا ’’آج کی دنیا میں حقیقت یہ ہے کہ ڈالر کسی بھی جوہری بم سے زیادہ خطرناک ہتھیار ہے۔ مختلف ادوار میں امریکی حکمت عملیاں مختلف رہی ہیں۔ امریکی صدر جارج واشنگٹن اور فرینکلن روز ویلٹ کے ادوار میں عالمی سطح پر امریکی مفادات کا تحفظ کرنے اور امریکا کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل اور حصول کے لیے مختلف حکمت عملیاں اختیار کی گئیں۔ موجودہ دور میں اقتصادیات سے یہ کام لیا جارہا ہے‘‘۔ امریکا کے وزیر خزانہ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’اقتصادی طور پر کسی ملک پر گرفت کرنے کی حکمت عملی سے ایک نیا میدان جنگ معرض وجود میں آیا ہے۔ اب امریکا کے فوجیوں کی جانیں خطرے میں ڈالنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے تاریخ کی نظر میں مجرم بننے کی ضرورت رہی ہے‘‘۔
بات بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور عمومی مہنگائی کی نہیں ہے۔ بات یہ بھی نہیں ہے کہ گزشتہ ادوار میں برے یا بھلے لوگوں کے کاروبار تو چل رہے تھے، غریب کو روٹی تو مل رہی تھی۔ بات اب بہت آگے چلی گئی ہے۔ بات اب عام آدمی کی یا روزمرہ کے کام کاج کی نہیںرہی۔ بات سلامتی کی ہے۔ قومی سلا متی کی۔ 29جنوری کو امریکی فوج کی چند خفیہ دستاویزات منظر عام پر آئیں۔ ان میں سے ایک دستاویز جس کا نمبر FM3-05-130 ہے غیرروایتی جنگی حکمت عملی سے متعلق تھی۔ اس میں درج تھا ’’امریکا کی فوج عالمی مالیاتی ادارے اور ورلڈ بینک کو غیرروایتی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے‘‘۔ امریکا کے سلامتی کے ادارے اور وزارت خزانہ کس طرح یک جان دو قالب ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ امریکا کی وزارت خزانہ اور مرکزی خفیہ ادارہ دو الگ الگ حکومتی محکمے ہیں جن کے دائرہ کار بظاہر بالکل مختلف ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں محکمے انتہائی قریب رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ امریکا کے وزیر خزانہ ڈیوڈ کوہن کے عہدے کی مدت ختم ہوئی تو ان کے تجربے سے جس محکمے نے فائدہ اٹھایا یا با الفاظ دیگر انہیں جس اگلے محکمے میں تعینات کیا گیا وہ ڈپٹی ڈائر یکٹر سی آئی اے کی پوسٹ تھی۔ اس قربت اور حکمت عملی کا نتیجہ پاکستان کے باب میں دیکھ لیجیے۔ پاکستان پر بم نہیں برسائے گئے، فوج نہیں اتاری گئی، زمینی فوجی دستے شہروں پر حملہ آور نہیں ہوئے، اقتصادی ہتھیار سے ملک فتح ہوگیا۔ یہ ایک نئی جنگ ہے۔ جنگ کا جدید اسلوب ہے جس میں معیشت کو روایتی طریقوں سے چلانے والے نظام کو قابو کرکے، اس پر دسترس حاصل کرکے کامیابی حاصل کرلی جاتی ہے۔
اقتصادی جنگ کی اصطلاح کچھ ایسی ڈھکی چھپی یا خفیہ بھی نہیں ہے۔ اقتصادی جنگ سے مراد کسی ملک کے اقتصادی فیصلوں کو اس طرح قابو کرنا یا زیادہ درست الفاظ میں اپنے ہاتھوں میں لینا ہوتا ہے اس کے تمام فیصلے بشمول دفاع مفلوج ہوکر رہ جائیں۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیجیے کہ بھارت کے مگ 21طیاروں کو گرانے
کے لیے اب آپ F-16 امریکی طیارے استعمال نہیں کرسکتے۔ ان کی جگہ آپ کو پاکستان اور چین کے اشتراک سے بنائے گئے F-17تھنڈر طیارے استعمال کرنے ہوں گے۔ امریکا سے خرید کیے اسلحے کے استعمال میں آپ کتنے آزاد ہیں۔ ذرا سو چیے۔ 1965 کی جنگ میں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا تھا۔ اس جنگ میں جب ہم نے امریکی اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال کیا تھا تو ہمیں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ امریکا کی جانب سے باور کرایا گیا تھا کہ امریکی اسلحہ کمیونزم کے خلاف استعمال کے لیے دیا گیا تھا نہ کہ بھارت کے خلاف۔ اس مرتبہ امریکی رویے کے خلاف شور اٹھا تو امریکا کو وضاحت کرنا پڑی کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ یہ وضاحت پاکستان کی لحاظ داری یا پاکستان کو امریکی اسلحہ استعمال کرنے کی آزادی کی وضاحت کے لیے نہیں دی گئی صرف اس لیے دی گئی کہ تمام ممکنہ عالمی گاہک ایسی پابندی کی صورت میں بھاگ جاتے۔ یہ ہماری دفاعی آزادی ہے۔ زنجیروں میں جکڑی ہوئی۔
3مارچ 2019 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کے ساتھ شمالی کوریا کا کوئی اقتصادی مستقبل نہیں ہے۔ پاکستان کے باب میں اس بات کو حقیقت بنادیا گیا ہے۔ اقتصادی محاذ پر ہمیں بے دست وپا کرنے سے امریکا کا اصل ہدف ہمارا جو ہری پروگرام اور جوہری ہتھیار ہیں۔ یہ جو محب وطن حلقوں کی طرف سے بار با ر کہا جاتا ہے کہ اپنے جوہری ہتھیار سنبھا لو۔ یہ وارننگ اس بات کا اشارہ ہے کہ دشمن کا ہدف ہمارے جو ہری ہتھیار ہیں۔ سی پیک پروگرام بھی دشمن کے نشانے پر ہے۔ شاید نشانہ لگایا بھی جا چکا۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے لے کر مودی تک اس معاملے میں تو کسی پردہ داری سے بھی کام نہیں لیا جارہا۔ ممکن ہے عمرانی حکومت کو بر سر اقتدار لانے کی ایک وجہ سی پیک بھی ہو۔ اب پاکستان میں چین کے حوالے سے ہمالیہ سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی کا ذکر کم کم ہی سننے میں آتا۔ چین اور چینی عوام کو نہ جانے کس کس رنگ میں پیش کیا جارہا ہے۔ اعضا کی فروخت، شادیوں کے اسکینڈل وغیرہ وغیرہ۔ ایران کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ شروع کرادی گئی ہے۔ بھارت اور افغانستان کے بعد اب ایران کی سرحد پر بھی باڑ لگائی جائی رہی ہے۔ پا کستان اور افغانستان کے درمیان بھی فوجیوں کی لاشیں گرنے لگی ہیں۔ جس طرح سوویت یونین کے انجر پنجر ڈھیلے کیے گئے اس سے کہیں زیادہ مہارت کے ساتھ ہمارے کل پرزے ڈھیلے کیے جارہے ہیں۔
اقتصادیات کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے اس امریکی منصوبے کے فاش ہوجانے کے بعد ضرورت یہ تھی کہ تمام ممالک بالخصوص اسلامی ممالک حد درجہ احتیاط کرتے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ اقتصادی امداد نہیں ملکوں کے جغرافیے تبدیل کرنے کے جدید انداز ہیں۔ عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے جب آئی ایم ایف کی مذمت کرتے تھے تو لوگوں کے چہرے کھل اٹھتے تھے۔ عمران خان کے دور میں پاکستان پہلی مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں گیا۔ پاکستان 1950میں آئی ایم ایف کا رکن بنا تھا۔ پاکستان اب تک 21مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے۔ لیکن اس مرتبہ معاملہ دیگر ہے۔ امریکا اور آئی ایم ایف کے تیور کچھ اور ہی ہیں۔ اس مرتبہ ہمیں ہزاروں زنجیروں میں جکڑدیا گیا ہے۔ ہمارے حکمران اب نمائشی ہیں۔ حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی ٹو کی ہے۔ دو دن سے ڈالر کی شرح مبادلہ میں اضافہ ہورہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے منی ایکس چینج کا کاروبا کرنے والے بڑوں کو طلب کیا اور حکم دیا کہ ڈالر کی طے شدہ قدر کو برقرار رکھا جائے۔ وزیر اعظم کی اس دھمکی کے جواب میں جمعرات کے روز ڈالر 148پر چلا گیا۔ فاریکس کمپنیوں اور نجی بینکوں نے وزیراعظم کے احکامات ہوا میں اڑادیے کیونکہ انہیں معلوم ہے… باد شاہ اپنا ہے کوئی اور ظفر… اور یہ ساری رعایا بھی کسی اور کی ہے… ایک قلاش اور کنگال ملک ایٹمی طاقت نہیں رہ سکتا۔ پاکستان کے حوالے سے یہی حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔