یتیم بچوں کا عالمی دن

337

 

 

انجمن اقوام عالم۔ اقوام متحدہ نے بہت سے انسانی طبقات کے لیے عالمی دن مقرر کر رکھے ہیں جو ہر سال منائے جاتے ہیں۔ مثلاً بزرگ شہریوں یعنی بوڑھوں کا عالمی دن، خواتین کا عالمی دن، ماں کا عالمی دن، باپ کا عالمی دن، بچوں کا عالمی دن، سفید چھڑی یعنی نابینائوں کا عالمی دن، وغیرہ وغیرہ۔ اِن عالمی دنوں کو منانے کا واحد مقصد ان انسانی طبقات کی طرف عالمی برادری کو متوجہ کرنا اور معاشرے میں ان کی اہمیت کا احساس دلانا ہے لیکن سچ پوچھیے تو معاشرے میں سب سے زیادہ محرومی، بے بسی اور کسمپرسی کا شکار یتیم اور لاوارث بچے ہیں جن کی طرف اقوام متحدہ نے توجہ نہیں کی اور ان کے لیے کوئی ’’عالمی دن‘‘ مختص نہیں کیا۔ یہ اعزاز اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کو حاصل ہوا ہے جس نے 2013ء میں اپنے وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس میں 15 رمضان المبارک کو ہر سال یتیم بچوں کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا تھا اور گزشتہ 6 سال سے یہ دن اسلامی ملکوں میں خاص طور پر بڑی باقاعدگی سے منایا جارہا ہے۔ مقصد اس دن کا یہی ہے کہ پوری دُنیا میں یتیم بچوں کی حالتِ زار کی جانب عالمی برداری کی توجہ مبذول کرائی جائے اور ان کی فلاح کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ پاکستان میں اس دن کو منانے کا اہتمام ’’آرفن کیئر فورم‘‘ کرتا ہے۔ اس تنظیم میں 19 رفاہی ادارے شامل ہیں جن میں سرفہرست الخدمت فائونڈیشن ہے جب کہ انجمن فیض الاسلام، ہیلپنگ ہینڈ، مسلم ایڈ، اسلامک ریلیف، قطر چیریٹی، ایدھی ہومز، تعمیر ملت فائونڈیشن، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، ریڈ فائونڈیشن، سویٹ ہومز، خبیب فائونڈیشن، صراط الجنت ٹرسٹ اور فائونڈیشن آف فیتھ فلی بھی اس فورس میں فعال کردار ادا کررہے ہیں۔ ان تمام رفاہی اداروں میں یتیم بچوں کی ایک بڑی تعداد خوراک، تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے فیض یاب ہورہی ہے۔ انجمن فیض الاسلام یتیم بچوں کا وہ ادارہ ہے جو قیام پاکستان سے بھی پہلے سے کام کررہا ہے اور قائد اعظمؒ بھی اس کے سرپرستوں میں شامل تھے۔ الخدمت فائونڈیشن نے قیام پاکستان کے بعد وطن عزیز میں یتیم بچوں کی کفالت کا شاندار ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت یتیم بچوں کی تعداد 42 لاکھ کے لگ بھگ ہے جنہیں خوراک، تعلیم اور صحت کی مناسب سہولتیں میسر نہیں ہیں، جب کہ پوری دُنیا میں فی الوقت یتیم بچوں کی تعداد 14 کروڑ کے قریب ہے اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ صرف ایشیا میں 6 کروڑ 10 لاکھ یتیم بچے زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں۔ پوری دُنیا میں سب سے زیادہ یتیم بچے مسلمان ملکوں میں ہیں جو عالمی استعمار کی مسلط کردہ جنگ اور خانہ جنگی کے سبب اپنے والدین اور سرپرستوں سے محروم ہو کر نہایت قابل رحم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مسلمان ملکوں میں افغانستان سرفہرست ہے جو پہلے روسی جارحیت کا نشانہ بنا اور اس جارحیت کے نتیجے میں کم و بیش 10 لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے اور اپنے پیچھے لاکھوں یتیم بچوں کو بے یارومددگار چھوڑ گئے۔ افغانستان ابھی روس جارحیت سے سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ امریکا اس پر حملہ آور ہوگیا اور اس نے افغانستان میں وحشت و درندگی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ اس وقت ایشیا میں یتیم افغانی بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ جب کہ عراق بھی امریکی جارحیت کا شکار ہونے کے بعد یتیم بچوں سے بھرا ہوا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین بھارتی اور اسرائیلی جارحیت کے سبب یتیموں اور بیوائوں کی بستی بنتے جارہے ہیں۔ نیز لیبیا، شام اور یمن میں خانہ جنگی کے سبب یتیم بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یتیم بچے پوری انسانیت کی خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ او آئی سی نے 15 رمضان المبارک کو یتیم بچوں کا عالمی دن قرار دے کر مسلمان ملکوں میں اصحابِ ثروت کو یتیموں اور مساکین کے لیے انفاق فی سبیل پر بطور خاص اُبھارا ہے۔ رمضان ہمدردی، ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہونے اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ پاکستان میں جو رفاہی ادارے یتیم بچوں کی کفالت کا حق ادا کررہے ہیں ان کے ساتھ فراخدلانہ مالی تعاون یتامی ٰ کے عالمی دن کو زیادہ بامعنی اور بامقصد بنا سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام نے یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات یتیموں کے ساتھ اچھے برتائو کو اہل ایمان کی خوبی قرار دیتی ہیں۔ خود نبی رحمت سیدنا محمدؐ دَرِّیتیم تھے۔ آپؐ کی پوری زندگی یتیموں کے ساتھ حسن سلوک سے عبارت ہے۔ آپؐ کا فرمان ہے کہ جس نے یتیم کے ساتھ اچھا سلوک کیا وہ قیامت کے روز انا کے ساتھ یوں ہوگا جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں۔
یتیموں کے ساتھ انفرادی و اجتماعی حسن سلوک کے علاوہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان حکومتیں اپنے اپنے دائرے میں یتیم بچوں کی فلاح وبہبود کے خصوصی منصوبے شروع کریں اور انہیں معاشرے کے باعزت شہری بنانے میں اپنا کردار ادا کریں، جب کہ او آئی سی یتیم بچوں کے لیے عالمی فنڈ قائم کرے اور اس کے ذریعے مقبوضہ کشمیر، فلسطین، عراق، افغانستان اور دیگر ممالک میں یتیم بچوں کی مدد کی جائے۔ سال میں محض ایک دن یتیموں کے حق میں آواز بلند کرنا کافی نہیں ہے۔