جس کی لاٹھی اس کی بھینس

215

 

 

یقین نہیں صرف تصور کیجیے کہ ہمارے یہاں ڈاکوؤں چوروں لٹیروں کی حکومت ہے۔ حکمرانوں کو اپنے معاملات چلانے کے لیے وفاقی کے خود مختار ادارے قومی احتساب بیورو کے ساتھ مقامی پولیس کے قوانین بھی رکاوٹ محسوس ہورہے ہیں خصوصاً اپنی مرضی سے پولیس افسران کے تقرر اور تبادلوں کے اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے من پسند کارروائیاں نہیں کر پارہے ایسے میں وہ حکومتی اراکین کی عددی طاقت کا فائدہ اٹھاکر قوانین ہی کو بدلنے پر تل چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی 2013 تک
کی حکومت قومی احتساب بیورو کے چھاپوں سے پریشان ہوکر نیب کو سندھ میں کارروائیوں سے روکنے کے لیے سندھ اسمبلی میں بل منظور کراچکی ہے تاہم اس بل پر اس وقت کے گورنر نے دستخط نہیں کرنے اور عدالت کے فیصلے کے باعث عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا۔ یہی نہیں اس حکومت نے نیب
کا راستہ روکنے کے لیے صوبائی احتساب بیورو بنانے کا بھی فیصلے کرلیا تھا۔ لیکن اس پر بھی آئینی تقاضوں کی وجہ سے باوجود کوشش کے عمل نہیں کیا جاسکا۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی ناکامی یہ نہیں ہے کہ وہ صوبے میں اپنے اعلانات کے مطابق صحت، تعلیم، پانی کی فراہمی اور رہائش، کھیل و تفریحات کی سہولیات فراہم نہیں کرسکیں بلکہ دودھ، سبزی سمیت روزمرہ کی اشیاء پر منافع خوری کو بھی کنٹرول نہیں کرسکی۔ بلکہ اس حکومت کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس نے کرپشن کے خلاف اقدامات کے بجائے کرپٹ اور کریمنل عناصر کی حوصلہ کے مترادف اقدامات کیے۔ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کا یہ کہنا کہ ’’معیشت اور نیب‘‘ ایک ساتھ نہیں چل سکتے اس لیے غلط بلکہ سراسر غلط ہے کہ ان دونوں کا کوئی میل نہیں اور نہ ہی کوئی ٹکراؤ ہے۔ اگر معیشت سے جڑے معاملات میں کرپشن کے خلاف کارروائی کرنے والے ادارے کو دور کردیا جائے تو اس
(باقی صفحہ 7کالم 1پر)
بقیہ:محمد انور
کا مطلب یہ ہوگا کہ معیشت کے معاملات کرپٹ عناصر اور کرپشن کو چھوٹ دیدی گئی ہے۔ ’معیشت اور نیب‘ کو ایک دوسرے کا مخالف سمجھنے والے وہ عناصر ہیں جو ہر جگہ کھلی کرپشن کو ناگزیر سمجھتے ہیں یا جو بدعنوانی کے امور جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
سندھ حکومت سندھ پولیس کو بھی بااختیار نہیں رکھنا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے تو ویسے کبھی بھی کرپشن اور کریمنلز کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی مثال قائم نہیں کی لیکن سابق آئی جی پولیس اللہ ڈینو خواجہ یا اے ڈی خواجہ نے اپنے تعیناتی کے دوران بدین میں گنے کے کاشت کاروں کی شکایت پر جیسے ہی بااثر و اہم ترین سیاسی شخصیت کے دوست انور مجید جو ان دنوں نیب کے مقدمات میں گرفتار ہوچکے ہیں کے خلاف کارروائی اور کاشت کاروں کی شکایت کا سدباب کرنے کا حکم دیا تھا اسی وقت سے صوبائی حکومت کے لیے سندھ پولیس ایک ’’اینٹی گورنمنٹ آرگنائزیشن بن چکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب سندھ میں اصول پسند اعلیٰ تعلیم یافتہ پی ایچ ڈی، آئی جی ڈاکٹر امام اور ان ہی کی طرح کے اصول پرست ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر شیخ موجود ہیں تو ان سے بھی صوبائی حکمران پریشان ہیں کیونکہ یہ دونوں پولیس قانون کے مطابق اختیارات میں صوبائی حکومت کو مداخلت کرنے نہیں دے رہے اور دینا بھی نہیں چاہتے۔ جبکہ حکومت پولیس پر مکمل کنٹرول کرنا چاہتی ہے اس مقصد کے لیے حکومت سندھ اسمبلی میں پولیس ایکٹ 2002 کو بحال کرنے کا بل منظورکرلیا ہے۔ یہ ایکٹ پرویز مشرف کے دور حکومت میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سسٹم کے تحت رائج کیا گیا تھا 2009 میں اس ایکٹ کے تحت انگریزوں کا پولیس آئین ختم ہوجائے گا، آئی جی۔ اے آئی جی، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کی تعیناتی کا اختیار وزیراعلیٰ کے پاس ہوگا۔ گو کہ پولیس کے نظام کو چلانے کا کنٹرول حکومت کے پاس چلا جائے گا۔ اس طرح مشہور کہاوت ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے مطابق صوبائی پولیس کو چلایا جائے گا۔ اگرچہ اس بل کی منظوری کے دوران اپوزیشن کی جانب سے شدید ہنگامہ آرائی کی گئی تاہم مذکورہ کہاوت کے مطابق بلدیہ منظور کرلیا گیا ہے۔ خیال ہے کہ اس بل پر گورنر سندھ عمران اسماعیل دستخط نہیں کریں گے بلکہ وہ اسے ایسے واپس بھیج دیں گے۔