ٹھگوں کا ٹولہ جو الیکشن کے بعد ملک وقوم پر مسلط ہوتا ہے اس مرتبہ جلد ہی رسوائی، ناکامی اور نامرادی کا شکار ہوگیا ہے۔ روپیہ اب کسی کے قابو میں نہیں۔ روپے کی بد حالی نہیں، یہ تنزلی کا سفر ہے، جسے راہ میں قرار نہیں آتا۔ حکومت کی بے بسی اور ایسی بے بسی۔ آئی ایم ایف کی ایسی جی حضوری اور فرمانبرداری سے تعمیل۔ حکومت کو گالی اپوزیشن کے ایوانوں سے نہیں اب عام آدمی کے گھر سے بلند ہورہی ہے۔ زندگی گزارنے کے اسباب جن کی دسترس سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ گزشتہ حکومتوں کو برابھلا کہنے سے پیدا ہونے والے احساسات سے اب عوام کے مجروح جذبات ٹھنڈک محسوس نہیں کرتے، صحن میں بچھے فاقے نہیں بہلتے، بچوں کی بھوک نہیں مٹتی، بیماروں کو دوا نہیں ملتی، محرومیاں کم نہیں ہوتیں، زندگی کی تلخی اور نفرت کی آگ نہیں بجھتی۔ غریبوں سے قربانی!!! یہ الفاظ اب زخموں پر اندر تک نمک چھڑکتے چلے جاتے ہیں۔
تھوڑے عرصے بعد زندگی آسان ہوجانے کے فریب پر اب کسی کو یقین نہیں۔ یہ وہ قیادت ہی نہیں جس پر یقین کیا جاسکے۔ یہ پراگندگی فکر کا ڈھیر اور پریشان خیالی کی بد نما صورت ہے۔ عالمانہ باتیں، فلسفہ وتصوف کے لچھے، کب یوٹرن کے الجھاووں میں گم ہوجائیں کچھ پتا نہیں۔ مدینے جیسی ریاست، چین کا ماڈل، ملائشیا کا ماڈل، ایران کا ماڈل، اسکنڈے نیوین ماڈل، کینیڈین وزیراعظم کی سادگی، کوئی ہے جو ہمارے وزیراعظم کی الف لیلہ رقم کرسکے۔ وزیراعظم ہائوس، ایوان صدر، گورنر ہائوس کے ملبے پریونی ورسٹیوں کی تعمیر، کن گم گشتہ وادیوں میں کھو گئی ہے کوئی کو لمبس ہی دریافت کرسکتا ہے۔ جاپان اور جرمنی کی مشترکہ سرحد، قائداعظم کا سرطان ’’جاہل کا لٹھ‘‘ نامی ایک مجموعہ ترتیب دیا جاسکتا ہے۔ سطحی معلومات، خیالی تجزیے یہی وزیراعظم کا زاد راہ ہے، یہی ان کی اعلیٰ ترین مغربی اداروں میں تحصیل علم کا حاصل ہے۔
اس لیاقت کے ساتھ موجودہ حالات سے عہدہ برآہونا موجودہ حکومت کے بس کی بات نہیں۔ معیشت غوطے کھارہی ہے۔ معاشی حالات طوفانی لہروں کے رحم وکرم پر ہیں۔ وہ ذہین ترین عالمی معیشت دان خان صاحب کی حکومت نے جنہیں اس درماندہ ملک پر مسلط کیا ہے وہ اس کی بدحالی میں مزید اضافے کا سبب بنیں گے۔ یہ معیشت دان مخلوق دنیا بھر میں ناکام ہورہی ہے۔ ان کی سوچ اور فکر جو منظر نامے تخلیق کرتی ہے اسی میں روپے کی بے قدری، خسارے کے بجٹ، اسٹاک ایکس چینج کا انہدام، شرح سود میں اضافے، نج کاری اور سرمایے کی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ جن سے پیدا شدہ نتائج اور تباہی کو برداشت کرنے کی تلقین غریبوں کو کی جاتی ہے۔ ملکی استحکام کے نام پر، معیشت کی بہتری کے نام پر اور کبھی ملک وقوم کی بقا کے نام پر، سرمایہ دارانہ فلسفہ اخلاق غریبوں سے قربانیاں ما نگنے تک محدود ہے۔ لیکن دولت مندوں، سرمایہ داروں، سیاست دانوں، جرنیلوں، صنعت کاروں اور لٹیروں سے کچھ طلب کرنا!!! عمل تو درکنار ایسا سوچنا بھی محال ہے۔ یہ نظام دنیا بھر میں ناکام ہورہا ہے اس کو چلانے کی کوشش کرنے والے ایک تنگ وتاریک کوٹھڑی میں بند ہیں جہاں روشنی کا گزر نہیں اور جو لوگ کسی بہتری کی امید میں ان سے رجوع کرتے ہیں یہ انہیں بھی اسی تنگ وتاریک اور بے نور کوٹھڑی میں گھسیٹ لیتے ہیں۔
حکومت کی نئی اقتصادی ٹیم ان بے رحم، مفاد پرست ماہرین پر مشتمل ہے جو بستیوں کو اجاڑ اور ویران کردیتی ہے۔ مفتوحہ ممالک جن کے حملوں کی تاب نہیں لاتے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ان کے اقدامات کا خمیازہ نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ حفیظ شیخ وہ تجربہ کار نیلام چی ہیں جن کے ارادے آخر وقت تک پردے میں رہتے ہیں۔ رضا باقر سرمائے کی پہلی صف کے وہ جرنیل ہیں جنہیں کسی بھی ملک پر حملے کی قیادت سونپی جاتی ہے۔ وہ مصر کے غارت گر ہیں۔ مصر کو لوٹنے اور برباد کرنے کے بعد جنہیں پاکستان پر حملے کی کمان سونپی گئی ہے۔ یہ حملہ آوروں کی پہلی کھیپ ہے۔ جس کے بعد اور آئیں گے۔ اور آئیں گے۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا نیا ورژن ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے کلکتہ میں کوٹھیاں قائم کرنے کی اجازت مانگی تھی اور انجام کار آخری مغل فرمانروا کو لال قلعہ کے مشاعروں تک محدود کردیا تھا۔ تحریک انصاف کے سلیکٹڈ وزیراعظم بھی فضول اور احمقانہ باتوں اور بے سروپا گفتگو اور وعدوں اور یو ٹرن تک محدود ہوکر رہ جائیں گے۔ ایک غیر متعلق وجود۔
اکیسویں صدی کے قارون دنیا کے وسائل پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے استعماری اداروں اور سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے انہوں نے اقتصادیات کو ’’شیطان کا مسکن‘‘ بنادیا ہے۔ جس میں غریبوں کے مسائل کا کوئی حل اور غربت کے خاتمے کا کوئی کلیہ موجود نہیں ہے۔ لوگوںکی اکثریت کو اس نظام اور اس کے اداروں نے بے روزگاری اور بھوکوں مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ جب کہ اس نظام میں کسی بھی ایجنٹ حکمران اور سیاست دان کے پیٹ کا دوزخ بھرنے کا اہتمام باکمال موجود ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط سے پیدا ہونے والی ہنگاموں اور حشر سامانیوں کا ابھی آغاز ہے۔ معاشی کشتی پر اب ہمارا کنٹرول نہیں ہے۔ اس کشتی کو بچانے، اس کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے غریبوں کو اٹھا اٹھا کر غربت کے سمندر کی بے رحم موجوں میں پھینکا جارہا ہے۔ ہر طرف شور بپا ہے۔ شنید ہے کہ حکومت نے میڈیا سے درخواست کی ہے کہ اس مرحلے پر حکومت کی مدد کرے اور ہاتھ ہلکا رکھے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ حکومت عوام کو بے وقوف سمجھتی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت سے عوام کی مجروح اور گھائل امیدیں ٹھوس سچائیوں پر استوار ہیں۔ فاقوں اور محرومی کے کرب سے نفرت اور حقارت جنم لیتی ہے۔
یہ عالمی ماہرین کرام امریکا اور یورپ کی معیشتوں کو درست سمت میں چلانے میں ناکام ہیں۔ جہاں حکومتیں معاشی بحرانوں کی زد پر ہیں۔ ریاستیں کمزور ہورہی ہیں۔ پوری دنیا میں لاکھوں کروڑوں انسان سڑکوں پر نکلنے اور احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان پر مسلط کی گئی، بظاہر پاکستانی نژاد اقتصادی ماہرین کی ٹیم پاکستان کے لیے نہیں عالمی سرمائے اور آئی ایم ایف جیسے عالمی ادارے کے مفاد کے لیے متحرک ہے جو اس نظام سے پیدا شدہ بیماری کا علاج اسی نظام کے دوسرے متبادل کے ذریعے کررہی ہے جس سے پاکستان کے حالات مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔ مہنگائی کو ابھی اور بڑھنا ہے، معیشت کو ابھی اور تباہ اور برباد ہونا ہے۔ بے روزگاری میں ابھی اور اضافہ ہونا ہے۔ اس گمبھیرتا نے اپوزیشن جماعتوں کو لا تعلقی ختم کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ بلاول زرداری کی افطار پار ٹی میں مریم نواز شریف کی شرکت، مولانا فضل الرحمن کی کامیابی سے زیادہ حالات کا جبر ہے۔ عید بعد احتجاجی تحریک کے امکانات رد نہیں کیے جاسکتے۔ پارلیمان کے اندر سے بھی تبدیلی کی بات کی جارہی ہے۔ ایک تجویز یہ ہے کہ بحران جتنا بڑا ہے اس سے نمٹنا تنہا پی ٹی آئی حکومت کے بس کی بات نہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں متحد ہوں اور مل کر اس طوفان کا مقابلہ کریں۔ یہ حل زیادہ بہتر ہے لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے اس صورت میں اس حکومت کے ساتھ ان کا تعاون اب ممکن نہیں رہا۔
یہ تمام حل اور تجاویز اپنی جگہ لیکن صورتحال یہ ہے کہ اس زوال پزیر سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے اصلاحات کی کوئی بھی صورت انجام کار ناکامی کی طرف لے جائے گی۔ مسئلے کا حل نہ سرمایہ دارانہ معیشت کے پاس ہے نہ جمہوریت کے پاس۔ مسئلے کا حل صرف اسلام کے پاس ہے۔ مداوا صرف اسلام کرسکتا ہے۔ جو سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرتا ہے، دولت اور سرمایے کی طاقت کو توڑتا ہے جس میں آئی ایم ایف جیسے اداروں کی گنجائش نہیں۔ اسلام کے نفاذ کی صورت میں ہمیں پوری دنیا کا سامنا کرنا ہوگا، بائیکاٹ بھی ہو گا، پا بندیاں بھی لگیں گی۔ ہمیں غربت اور ذلت میں ٹھوکریں کھانی ہیں یا پھر اسلام کو اپناکر وقت کی مہار اپنے ہاتھ میں پکڑنی ہے۔ فیصلے کی گھڑی دستک دے رہی ہے۔