جب معاملہ اربوں ڈالر کا ہو تو مظلوم کو ظالم اور ظالم کو معزز بنانے کے لیے دماغ بھی خوب چلنے لگتے ہیں۔ چناں چہ چین میں مسلمان لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی ساری خبریں جھوٹی قرار پائیں، جسم فروش اور اعضا فروخت کرنے کے الزام لغو قرار پائے اور سارا نزلہ جعلی شادیوں میں ملوث میرج بیوروز پر گرے گا۔ گویا غلطی بھی پاکستانیوں کی نکلی… چین کے ڈپٹی چیف ڈی مشن نے دوٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ یہ سب سوشل میڈیا کا پروپیگنڈا ہے، خواتین سے عصمت فروشی اور اعضا فروخت کرنے کی خبریں بھی جھوٹی قرار دے دی گئیں۔ انہیں ایسا ہی کہنا چاہیے تھا لیکن پاکستانی میڈیا کو کیا ہوا کل تک خواتین کے روتے ہوئے انٹرویو دکھائے جارہے تھے وہ سب کیا جھوٹے تھے، پھر تو سب سے پہلے جھوٹے انٹرویو دکھانے والے چینلوں کو سزا دی جائے۔ لیکن اب کارروائی پاکستان میں میرج بیوروز کے خلاف ہورہی ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر خود کومسلمان ظاہر کرنے والے چینی اچانک عیسائی بن گئے۔ ایف آئی اے نے 2 پادریوں کو بھی گرفتار کرلیا، عیسائیت کے جعلی سرٹیفکیٹ دینے کا الزام ثابت ہوا یا نہیں لیکن گرجا گھروں کے منتظمین نے ازخود کارروائی کا یقین دلادیا تا کہ ایف آئی اے کی کارروائی روکی جائے۔ یہ معاملہ دو تین ماہ قبل ایک ایسی پوسٹ سے سامنے آیا جس میں ایک لڑکی رو رہی ہے اور چین میں اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کا ذکر کررہی ہے۔ اس سے قبل ایک پاکستانی نے اپنی بیوی کو چینی حکام کی قید سے بازیاب کرانے کی باقاعدہ درخواست دی تھی۔ جس کے بعد یہ معاملہ میڈیا پر آیا۔ جس چیز کو چین کے ڈپٹی چیف ڈی مشن نے جھوٹا پروپیگنڈا قرار دیا اس کے ایک حصے کا وہ خود بھی اعتراف کررہے ہیں، یعنی شادیوں کا اور ان میں اضافے کا۔
چینی مردوں کا پاکستان آکر پاکستانی لڑکیوں سے شادی کرنا ہر اعتبار سے حیرت انگیز ہے۔ ایک تو چین میں کوئی مذہب نہیں جو لوگ پاکستان آرہے ہیں وہ خود کو مسلمان یا عیسائی ظاہر کرتے ہیں۔ یہ بات بجائے خود قابل تحقیق ہے۔ چین میں مسلمان جن پابندیوں کا شکار ہیں ان کی روشنی میں وہ پاکستان جیسے ملک کا سفر کیسے کررہے ہیں۔ ان کو تو اصلاحی مراکز میں بند رکھا گیا ہے۔ ان کو پاکستان آکر شادی کرکے مسلمان یا عیسائی (اب عیسائیوں کا ذکر آنے لگا ہے) لڑکیوں کو اپنے ساتھ چین لے جانے کی اجازت کیسے دی جارہی تھی۔ ڈپٹی چیف ڈی مشن نے اپنے بیان میں جو دو باتیں کہی تھیں ان میں سے ایک بہت واضح تھی کہ ہم قانونی شادیوں کو تحفظ دیں گے۔ یعنی جو لڑکی قانون کی آڑ میں پاکستان سے لے جائی جاچکی ہے اس کی واپسی کا امکان نہیں۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے پاکستان کی ویزا پالیسی تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔ گویا ویزا دینے سے خرابی ہورہی ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ چین کو اب آہنی پردے ہٹانے ہوں گے۔ چین میں کس کے ساتھ کیا معاملہ ہورہا ہے اسے سامنے لانا ہوگا۔ یہ سوشل میڈیا صرف جھوٹ نہیں چلاتا۔ کچھ ہوتا ہے تو اس میں زیب داستاں کے لیے کچھ اضافہ بھی ہوتا ہے۔
چینی ڈپٹی چیف مشن کے بیان کے بعد پاکستانی حکام میرج بیوروز کے خلاف تو کارروائی کے لیے نکل پڑے لیکن ان پاکستانی لڑکیوں کے بارے میں کوئی معلومات کیوں نہیں دی گئیں جن کے بارے میں سوشل میڈیا پر خبریں سامنے آئیں۔ اس پاکستانی کی بیوی کا کیا ہوا جس نے باقاعدہ درخواست دے رکھی ہے۔ یقینا میرج بیوروز بزنس کررہے ہیں لیکن جو چینی انگریزی بھی نہیں جانتے ان کو کون سی عدالت کے سامنے لے جا کر کس نکاح خواں سے نکاح پڑھواتے ہیں۔ 14 برس کی لڑکی کا نکاح 30 یا40 سال کے آدمی سے کرایا جائے تو پولیس چھاپا مار کر دولہا، لڑکی کے والدین اور نکاح خواں کو پکڑ لیتی ہے۔ یہ میرج بیورو مذہب کے ثبوت کے بغیر، غیر ملکی کے پلے پاکستانی لڑکی کو باندھنے کا مکروہ دھندا کررہے ہیں، کسی جج، مولوی یا میرج بیورو کے خلاف کارروائی
نہیں کی گئی۔ 14 سالہ لڑکی کی 30 سالہ مرد سے شادی اتنی غلط نہیں جتنی لا مذہب بلکہ مذہب دشمن چینی سے کسی دیہاتی لڑکی کی شادی ہے۔ تو ہمارے حکام حرکت میں کیوں نہیں آتے۔ اسے سی پیک کے خلاف تحریر قرار دیا جاسکتا ہے لیکن بات صرف سی پیک کی نہیں ہے جب پاکستان، امریکا و یورپ سے امداد لیتا ہے تو ان کی تہذیب یا طرز زندگی بھی ساتھ آتی ہے اور ہم نے اس کے حوالے سے بھی قوم اور حکمرانوں کو متوجہ کیا، اب چین 56 ارب ڈالر لگا رہا ہے تو اس کے طور طریقے بھی آئیں گے اور اچھائیوں کے ساتھ ساتھ وہ خرابیاں بھی آئیں گی جو ان کے معاشرے میں ہیں۔ اچھائی اور برائی کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ 22 کروڑ کے ملک پر ڈیڑھ پونے دو ارب کی لامذہب قوم کے اثرات آئیں گے جو شرح آبادی کی ہے اس شرح سے یہ اثرات آئیں گے۔ امریکا اور یورپ میں مذہب کو تسلیم کیا جاتا ہے اسے ایک مقام دیا گیا ہے اس لیے غلط چیز کو غلط ہی کہا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر وہ اپنی رائے کا اظہار کریں لیکن غالب اکثریت اسے غلط تصور کرتی ہے۔ چین کے معاملے میں سب باتیں عبث ہیں۔ نہ مذہب نہ اقدار بلکہ مذہب تو غداری سے بھی زیادہ خطرناک چیز تصور کیا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان 56 ارب ڈالر کے احسان تلے دبی ہوئی ہے اس لیے اس موضوع پر کوئی وزیر، کوئی ادارہ حرکت میں نہیں آرہا۔ پاکستان کے معصوم اور بے خبر عوام کو تحفظ دینا آخر کس کی ذمے داری ہے۔