اسلام آباد (میاں منیر احمد) وفاقی شرعی عدالت میں زیر سماعت سود سے متعلق کیس میں ایک بڑی پیش رفت ہوئی ہے کہ وفاق نے اپنا جواب داخل کرادیا ہے کہ شرعی عدالت آئین کی شقوں کا شرعی تعلیمات کی روشنی میں اور خصوصاً ربا کیس کا جائزہ لے سکتی ہے اور یہ اس کے دائرہ اختیار میں ہے وفاقی شرعی عدالت نے گزشتہ سماعت کے موقع پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے اس بات کا جواب مانگا تھا کہ وہ شرعی عدالت کے آئین کے جائزہ لینے سے متعلق دائرہ اختیار سے متعلق رائے عدالت میں پیش کریں جس پر وفاق کی جانب سے جواب داخل کرا دیا گیا ہے کہ عدالت آئین کے شقوں کا شرعی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ لے سکتی ہے یہ بات ایک ذمہ دار ذریعے سے معلوم ہوئی ہے اس کیس کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سماعت کے موقع پر چیف جسٹس شیخ نجم الحسن کی سربراہی میں وفاقی شریعت عدالت کے ایک بڑے بینچ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ ربا کی بنیاد پر نظام کے خلاف عدالت کے اختیارات پر اپنی رائے تحریری جواب کی صورت میں دیں۔ وفاقی شرعی عدالت اصل میں چند بنیادی اصولوں پر کام کرتی ہے اور آئین کا جائزہ لینے کے لیے بھی وفاق سے اسی لیے جواب مانگا گیا تھا اور اس حوالے سے یہ نہایت اہم نکتہ ہے جس کاجواب وفاق کی جانب سے دے دیا گیا ہے اب عدالت اس جواب کی روشنی میں ربا کیس کی کارروائی آگے بڑھائے گی گزشتہ سماعت کے موقع پراسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مشیر سلمان اکرم راجا نے عدالت کے دائرہ کار کے معاملے پر دلائل دیے تھے اور کہا کہ ربا کو ختم کرنے کے آئینی معاملات ہیں.انہوں نے آئین کے آرٹیکلز 38-ایف، 81-سی، 121 (2)، 161، 260 اور 203-13 (ج) اور 203-ڈی کو بیان کیا تھاانہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا بھی حوالہ دیتے ہوئے دلائل دیے تھے کہ پالیسی کا اصول غیر متعلق مسئلہ ہے آئین کے آرٹیکل 7 میں بیان کردہ خاص طور پر ریاست سے تعلق رکھتا ہے، جس میں عدلیہ کو خارج کر دیا گیا ہے.تاہم، انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ریاست اس مسئلے کی سنجیدگی سے واقف نہیں، انہوں نے مزید کہا کہ حکومت معیشت کے اسلامی پہلو کے لیے مختلف کمیشن تشکیل دے رہی ہے جس نے حکومت کو رپورٹ پیش کی. تاہم کورٹ کے سربراہ نے ان سے دریافت کیا تھا کیا مسئلہ اصل میں حکومت کو سنبھالنا ہے،’’ اگر آپ اس معاملے کے منطقی نتیجے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں بتائیں اب تک کس نے تعاون کو بڑھایا ہے‘‘۔ اسی سماعت کے موقع پرعدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے موقف کو فیڈرل شریعت کورٹ کے دائرہ کار پر پیش کریں اور غیر معینہ مدت کے لیے سماعت کو ملتوی کردی تھی۔