چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ کرپٹ افراد کو عہدے نہ دے۔ کرپٹ افراد کو یہ سوچ کر عہدے نہ دیں کہ ان سے پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ عہدوں کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔
دس ماہ پہلے عمران خان کی حکومت تبدیلی کے عنوان سے برسر اقتدار لائی گئی تھی۔ پالیسی شفٹ کے حوالے سے یہ ایسی قابل ذکر مدت نہیں کہ کسی بھی حکومت کے بارے میں کوئی محکم رائے قائم کی جاسکے لیکن تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں اس قلیل مدت ہی میں بے اطمینانی اور عدم اعتماد وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ عام شہریوں سے لے کر اداروں تک یہ خیال پختہ ہوچکا ہے کہ تبدیلی کی آرزو اور شدید خواہش کے نام پر وہ ایک فریب کا شکار ہوئے ہیں۔ عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد عمران خان نے جو کابینہ تشکیل دی وہ پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے وزرا پر مشتمل تھی۔ حکومت سازی کے پہلے مرحلے ہی میں عمران خان نے عوام کو ان ہی پالیسیوں اور لوگوں کے سپرد کردیا جن سے نفرت اور نجات کو انہوں نے جنون کی صورت عطا کی تھی۔ وہی تمام چہرے لوگوں پر مسلط کردیے جنہیں وہ عوام کے دکھوں اور مصائب کا ذمے دار قرار دیتے رہے تھے۔ دھرنے اور الیکشن مہم میں عمران خان چیخ چیخ کر جن حکومتوں کو کرپٹ، چور اور بدعنوان کہتے رہے تھے آج ان ہی حکومتوں کی چوریوں اور بدعنوانیوں کو چلانے والے وزیر وزراء اور ذمے داران عمران خان کی حکومتی ٹیم کا حصہ ہی نہیں عمران خان کے سب سے قریبی ساتھی ہیں۔ نیب کے چیئرمین جاوید اقبال کا اشارہ اسی سمت ہے۔
الیکشن مہم کے دوران عمران خان یہ تاثر دیتے رہے کہ وہ جب بھی اقتدار میں آئے ایک بھرپور ٹیم ان کے ہمراہ ہوگی۔ اسد عمر جنہیں تحریک انصاف کا دماغ کہا جاتا تھا انہیں دیکھ کر عمران خان کی اس بات پر یقین بھی آنے لگتا تھا۔ خیال میں ایسے منصوبے اور پالیسیاں تشکیل پانے لگتی تھیں جو دور رس ترقی اور پائیدار استحکام کی بنیاد بن سکیں گی۔ اسد عمر بروئے کار آئے تو سب حیران رہ گئے کوئی ٹھوس معاشی پالیسی اور اصلاحات تو درکنار وہ ڈھنگ کا کوئی پروگرام بھی پیش نہ کرسکے۔ جتنے عرصے وہ وزیر خزانہ رہے ٹامک ٹوئیاں ہی مارتے رہے۔ انہیں ہٹا کر حفیظ شیخ کو ان کی جگہ لگادیا گیا۔ ان کا انتخاب گویا پیپلز پارٹی کی حکومت کی معاشی پالیسیوں کا تسلسل ہے جن سے کسی کی خوشگوار یادیں وابستہ نہیں۔ یہ بدترین کا انتخاب ہے۔ حفیظ شیخ کل بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ایجنٹ تھے اور آج بھی ان کی یہی حیثیت ہے۔ رضا باقر کی گورنر اسٹیٹ بینک تعیناتی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ رضا باقر کو مصر سے پاکستان لایا گیا ہے۔ رضا باقر نے جب مصر کی معیشت کا چارج سنبھا لا تھا اس وقت مصر کی معیشت کا حجم 300ارب ڈالر تھا۔ دو برس میں اسے برباد کرکے 235ارب ڈالر تک پہنچا دیا گیا۔ مہنگائی 35فی صد اور غربت 55فی صد تک پہنچ گئی۔ بجلی مسلسل پانچویں مرتبہ 38فی صد مہنگی کردی گئی ہے۔ اعجاز شاہ جیسے بدنام زمانہ شخص کو امور داخلہ سونپ دینا اس بات کا اظہار ہے کہ نیب کے ساتھ ساتھ مخالفین سے آہنی ہاتھوں سے بھی نمٹا جائے گا۔
عمران خان بظاہر ہر پانچ برس بعد منعقد ہونے والے الیکشن کے تحت عمومی حالات میں اقتدار میں لائے گئے ہیں لیکن انہیں لانے کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو غیر معمولی حالات سے دوچار کیا گیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد حکومت کے جو خد وخال سامنے آئے وہ ایسے سیاست دانوں کا اجتماع ہے جو عمران خان کی خیال وقیاس پر ترتیب دی گئی شخصیت کا طواف کرتے رہتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان کی پوزیشنوں اور وزارتوں کی سپردگی اور تبدیلی بھی عمران خان کے اختیار میں نہیں۔ ان کی ڈوریاں معبد کے اصل پیشوائوں کے ہاتھ میں ہیں۔ عمران خان قومی یا ملکی امور میں بہتری یا ترقی لانے والی کسی وژنری شخصیت کا نام نہیں ہے وہ ایک اوسط ذہنیت والے اقتدار کی ہوس سے بھرے ہوئے مصنوعی سیاست دان ہیں جنہیں نظام کی الف بے کا بھی پتا نہیں ہے۔ اقتدار میں آنے کے لیے کیا کرنا ہے، کیسی تقریریں کرنی ہیں، کیا اقدامات ضروری ہیں انہیں جو کہا گیا جو مشورے دیے گئے وہ کرتے چلے گئے۔ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں جو کہا جارہا ہے وہ کررہے ہیں۔ رضا باقر کے بارے میں کرسٹینا لیگارٹ نے انہیں فون کرکے کہا ہم تمہیں بہترین لیڈر دے رہے ہیں۔ انہوں نے لیگارٹ کی بات پر یقین کرلیا اور رضا باقر کو گورنر اسٹیٹ بینک لگادیا۔ یہ ہے عمران خان کا ویژن۔ قیادت کی اہلیت۔
آج عمران خان ہیروازم کے شاہی جلوس کا قبرستان ہیں۔ وہ مغربی جمہوریت کے مداح کے روپ میں سامنے آئے تو کبھی مدینے جیسی ریاست کے علم بردار کی صورت میں۔ کروڑوں نوکریوں اور لاکھوں گھروں کا منجن ان کے سپرد کیا گیا وہ بلا سوچے سمجھے یہ منجن بیچنے میں لگ گئے۔ کرپشن کے خاتمے کا نعرہ ان کے حوالے کیا گیا چوروں اور لٹیروں کی چیخوں سے انہوں نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا۔ گزشتہ حکو متوں کی ہیرا پھیریوں، قرضوں اور بیرونی سرمایہ کاری پر انحصار کے بارے میں انہیں بریف کیا گیا انہوں نے اس غبارے میں ایسی ہوا بھری کہ درمیانے طبقوں اور جبر کی چکی میں پسے ہوئے غریبوں کو اپنا دیوانہ بنادیا۔ لیکن اقتدار میں آنے کے محض دس ماہ بعد آج عمران خان ایک ایسا لطیفہ گو ہے جو آئے دن نئے نئے لطیفے تخلیق کرتا رہتا ہے۔ جرمنی اور جاپان کی مشترکہ سرحد، پانچ ارب درخت، روشنی کی رفتار سے تیز ٹرین، بابا نورالدین کا ستر سالہ چلہ، روحانی سائنس کی ترویج کے لیے یونیورسٹی کا قیام عمران خان کی ذہنی کیفیت اور عدم تعقلی کا شاہکار ہیں۔ پہلے اقتدار میں آنے اور اب اقتدار میں رہنے کے لیے جو واہی تباہی ان کے ذہن میں آتی ہے وہ بولتے چلے جاتے ہیں۔
آئندہ دو برسوں میں ملک پر 27ارب ڈالر سے زیادہ کے قرضے واجب الا دا ہوجائیں گے جن کی ادائیگی کے لیے نجکاری اور عوام کا خون چوسنے کے سوا اس نظام کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ دولت مند اور پرتعیش زندگی گزارنے والے طبقات سے گھاس کی پتی کے برابر بھی قربانی کا تقاضا کرنا اس نظام کی سرشت میں شامل نہیں ہے۔ تباہ حال معیشت، معدوم ہوتی ایکسپورٹ، آئی ایم ایف کی آہنی جکڑ بندیاں اس پر بڑھتے ہوئے دفاعی بجٹ کی مجبوریاں۔ اس صورتحال سے عہدہ برآ ہونا موجودہ حکومت کے لیے ایسا ہی ہے جیسے پرائمری کلاس کے بچے کے ہاتھ میں حل کرنے کے لیے ایم ایس سی کا پرچہ تھمادیا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ اس ساری صورت حال کو نہ صرف دیکھ رہی ہے بلکہ اس حکومت کی ناکامی کی صورت میں متبادل کی تلاش میں بھی ہے۔ صدارتی نظام اور مارشل لا کی بات کی گئی۔ یہ بات آگے نہ بڑھ سکی تو رمضان المبارک میں جب معمولی کی سیاسی سرگرمیاں بھی معدوم ہوجاتی ہیں بلاول کی افطار پارٹی میں مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں اور قدآور شخصیات کی شرکت۔ یہ ایک غیر رسمی اے پی سی تھی۔ رسمی اے پی سی رمضان کے بعد متوقع ہے۔ بلاول زرداری کو آگے لانے کوشش کی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی اب بے نظیر اور بھٹو کے زمانے کی ملک گیر سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ سندھ تک محدود ایک دھڑے کا نام ہے۔ اس نظام کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ ہے اور نہ عوام کے پاس ہی ان چہروں کے سوا کوئی متبادل ہے۔ سامراجی آقائوں کی پیشانی کے بل ایک الگ مسئلہ ہیں۔ عمران خان کی حکومت رہے یا کوئی اور برسر اقتدار آئے کسی کے پاس بھی اسٹیبلشمنٹ اور سامراجی آقائوں کے اشاروں پر چلنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ رہے عوام تو ان کی خیر نہیں۔ اس ملک کی بقا اور عوام کی خیر صرف اور صرف خلافت راشدہ کے نظام میں ہے۔ اسلام میں ہے۔ اس طرف جانے کی کسی کو فرصت ہے نہ دماغ۔ سو، ٹھو کریں کھاتے رہیے۔