سچی بات ہے کہ بالکل بھی یقین نہیں آرہا اور حقیقت یہ ہے کہ لکھا بھی نہیں جارہا کیسے میں اپنے دوست مہربان قمر زمان کائرہ صاحب سے ان کے جواں سال صاحب زادے اسامہ قمر کے انتقال پر تعزیت کروں، جن کی کمر پر ایک یسا بوجھ لد گیا ہے کہ جس کے وہ متحمل نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو انہیں صبر جمیل دے گا اور ہمت بھی۔ بے شک ناگہانی موت بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے نبیؐ نے بھی ناگہانی موت سے پناہ مانگی ہے اور اس لیے کہا گیا ہے کہ جو کسی حادثے کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوجائے وہ شہید ہے‘ میرے پیارے بھائی قمر زمان کے کائرہ صاحب زادے اسامہ بھی شہید ہیں اور وہ شہداء میں شامل ہیں شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ یقینا ہمارے دوست کا بیٹا اسامہ بھی زندہ رہے گا‘ اللہ ہی ہے جوصبر دے دیتا ہے وگرنہ زندگی سے ایمان ہی اٹھ جاتا ہے۔ میر انیس کا شعر ہے ’’دشمن کو بھی خدا نہ دکھائے پسر کا داغ‘‘۔
اسامہ قمر کے انتقال پر تعزیت کے لیے جناب نواب زادہ افتخار احمد خان‘ ایم این اے پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین‘ روزنامہ نوائے وقت کے نواز رضا اور نوب زادہ عدنان احمد خان کے ہمراہ ان کے گھر حاضر ہوا‘ ان کے لان میں خلق خدا موجود تھی جو انہیں دلاسہ دینے آئی ہوئی تھی ہر عام اور خاص انہیں دلاسہ دینے پہنچا‘ چودھری منظور احمد‘ طارق فضل چودھری‘ ملک ابرار‘ جہانگیر ترین‘ عون چودھری‘ چودھری ریاض‘ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر ڈاکٹر خالد محمود‘ جماعت اسلامی پنجاب کے امیر ڈاکٹر طارق سلیم‘ غرض مقامی اور غیر مقامی بڑی تعداد میں احباب وہاں موجود تھے دو روز قبل محترم جناب لیاقت بلوچ تعزیت کے لیے آئے تھے‘ اسامہ کے جنازے میں بھی پورا شہر امڈ آیا تھا‘ کس قدر یہ خوش نصیب بچہ تھا‘ اللہ تعالیٰ اسے کروٹ کروٹ جنت عطاء کرے‘ آمین‘ اسامہ کائرہ کے ساتھ حادثے میں اُس کا ایک دوست حمزہ بٹ بھی جاں بحق ہوا تھا‘ موت نہیں دیکھتی کہ کون کس کا بیٹا ہے اور کون کس کا باپ‘ وہ تو زندگی کا تعاقب کرتی رہتی ہے باپ کا دکھ کوئی باپ ہی سمجھ سکتا ہے، بیٹا نہیں، وہ جب انجانے راستوں پر بہت دور نکل جاتا ہے، وہاں چلا جاتا ہے جہاں سے صدا بھی پلٹ کر نہیں آتی‘ قمر زمان کائرہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص جناب سے رحمت کرتے ہوئے صبر عطاء کیا ہے‘ بے شک موت کا ذائقہ ہر شخص کو چکھنا ہے ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ یہی بے رحم دکھ ازل سے ہم سب کا ہمزاد ہے۔ ہمیشہ کے لیے کسی کے بچھڑ جانے کا دکھ کلیجہ چیر دیتا ہے اے رب العالمین! صمیم قلب سے ہم دعا گو ہیں کہ ہمارے دوستوں‘ احباب کے گھر والوں اور قوم کے بچوں کو اپنی حفاظت میں رکھ‘ کسی کو بھی غم نہ دے اور ہمیں اس قابل بنا کہ ہم تیری رضا میں خوش اور راضی رہیں‘ جو بھی مانگیں تجھ سے مانگیں تیرے ہی آگے جھکیں۔
رسم قل کے موقع پر کائرہ غم بانٹنے کے لیے آئے ہوئے اور قرآن خوانی کی محفل میں بتایا کہ اسامہ کس قدر فرماں بردار بچہ تھا‘ ہر دفعہ گھر والوں کو بتا کر باہر جاتا مگر اس بار بتا کر نہیں گیا‘ ہمارے بیٹے ہمارے پاس اللہ کے مہمان تھے اور اتنے ہی دن ہمارے پاس رہنے آئے تھے‘ اللہ کی مانت تھے اللہ کے سپرد ہوگئے ہیں‘ الحمد اللہ‘ اللہ اکبر‘ یہ الفاظ قمر زمان کائرہ کی زبان سے ادا ہو رہے تھے اس وقت اللہ اس صابر شخص پر کتنا خوش ہورہا ہوگا اسامہ بہت ہی ہمدرد اور خدا ترس بچہ تھا انسانیت کی خدمت کرکے خوش ہوتا‘ اسے سیاست پسند نہیں تھی ہر وہ کام کرتا جس سے انسانیت اور خلق خدا کو فائدہ پہنچے میری دعاء ہے کہ اللہ تعالی کائرہ صاحب کو ہمت و حوصلہ عطا فرمائے دکھ کی چبھن سب کی ایک جیسی ہوتی ہے زندگی اور موت سانجھی ہے غم تو سب کا ایک سا ہوتا ہے ان کے مرحوم بچے کے حسن اخلاق اور نرم خوئی کا ذکر سب نے کیا یہی ان کے لیے آسودگی کا باعث بنے گا اس بچے کا اخلاق دراصل
ماں باپ کی تربیت ہی کا اثر تھا‘ اس بچے نے زندگی میں بھی نام کمایا اور اپنے آخری سفر پر جاتے ہوئے لوگوں کی دعائیں لیں‘ یہی دعائیں کائرہ صاحب کے لیے ہمت کا باعث بنیں گی ہمیں یقین ہے کہ اس دارالفنا میں ہر شے فنا ہوتی، اپنے رنگ بدلتی، مٹی میں ملتی اور پھر سے جنم لیتی ہے درختوں کی ٹہنیوں پر سجے ہوئے خوبصورت پھول مرجھاتے اور پھر بکھر کر مٹی میں مل جاتے ہیں اور پھر اِسی مٹی کی زرخیزی سے اُسی پودے کی ٹہنیاں اُسی طرح کے خوبصورت پھولوں سے بھر اور سج جاتی ہیں۔ ہم اُن کی خوبصورتی سے متاثر ہوتے اور اُن کے حسن سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں لیکن ان کی نازکی، غیر پائیداری اور فانی ہونے پر غور نہیں کرتے۔ مرجھاتے پھول، درختوں سے گرتے خزاں رسیدہ پتے اور فکر و قدرت کے ان گنت مظاہر ہمیں یہ راز سمجھاتے اور پیغام دیتے ہیں کہ دنیا میں کسی شے کو بھی بقا نہیں، کسی کو بھی دوام نہیں‘ لیکن یہاں دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں پہلی یہ کہ اب ہمیں ضرور اس بات کا احساس کرلینا چاہیے کہ ہائی ویز پر ٹریفک کا بہائو کیسے بہتر اور با حفاظت بنایا جاسکتا ہے‘ چھوٹی سواری اور موٹر سائیکل اور تانگہ‘ ریڑھی کے لیے ہائی ویز اور بڑی مصروف شاہراہوں پر آنا اگر روک نہیں سکتے تو ان کے لیے ایک الگ ضرور ٹریک ہونا چاہیے تاکہ یہ خود بھی محفوظ سفر کریں اور دوسروں کے سفر کو بھی محفوظ بنانے میں مدد گار ثابت ہوں۔