غبارے کی طرح بلند ہونے والا انقلابی ائرکرافٹ

211

امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے زمین پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار پر نظر رکھنے کے لیے بین الاقوامی خلائی سٹیشن آئی ایس ایس پر ایک نیا آلہ بھیجا ہے۔ ’او سی او تھری‘ نامی یہ سیٹلائیٹ امریکہ کی ریاست فلوریڈا سے گزشتہ ہفتے فالکن راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا گیا ہے۔ یہ سیٹلائیٹ 2014ء میں مدار میں اسی مقصد کے لیے بھیجے جانے والے ’او سی او ٹو‘ سیٹلائیٹ کے بچے ہوئے پرزوں سے بنایا گیا ہے۔
ان دونوں مشنز سے حاصل کی گئی معلومات سے سائنس دانوں کو یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں کیسے پھیلتی ہے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ’او سی او ٹو‘ اور ’او سی او تھری‘ سے حاصل کردہ معلومات کو یکجا کیا جائے گا۔ ’او سی او ٹو‘ کا سفر زمین کی گردش کے مطابق ہوتا ہے، اس لیے اس سیٹلائیٹ سے کسی بھی مقام کا ہر روز اسی وقت مشاہدہ کیا جا سکتا ہے لیکن ’او سی او تھری‘ کی گردش شمال اور جنوب کی سمت میں ہو گی جس کہ وجہ سے اس سیٹلائیٹ سے ایک ہی مقام کا دن میں متعدد بار مشاہدہ کیا جا سکے گا۔
’او سی او تھری‘ سے سامنے آنے والے حقائق اس لیے بھی دلچسپ ہوں گے کیونکہ درختوں کے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کی صلاحیت دن کے مختلف اوقات میں مختلف ہوتی ہے اور یوں ’او سی او تھری‘ پچھلی سیٹلائیٹ سے حاصل کردہ معلومات میں خاطر خواہ اضافہ کرے گی۔ ناسا کے اس منصوبے سے منسلک سائنسدان ڈاکٹر این مری ایلڈرنگ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا خلائی سٹیشن سے مختلف اوقات پر آنے والی یہ اطلاعات بہت اہم ہوں گی۔
درختوں کی کارکردگی دن کے مختلف حصوں میں بدل جاتی ہے اور اس بارے میں پہلے بھی بہت بحث ہو چکی ہے۔ اب اس بارے میں ہم کیا نئی معلومات حاصل کر پائیں گے میرے نزدیک سائنسی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ پہلو بہت دلچسپ ہو گا ’ا وربٹنگ کاربن اوبزرویٹری‘ (او سی او) کے نام سے یہ مشن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے پھیلنے سے متعلق ابہام ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ جان کر کہ یہ گیس کیسے اور کہاں سے بن رہی ہے اور کہاں پر جذب ہو رہی ہے۔
انسان فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھا کر اس نظام میں عدم توازن پیدا کر رہا ہے۔ اس وقت انسانی سرگرمیوں کے باعث ہر سال فضا میں تقریباً 40 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اضافہ ہوتا ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ حیاتیاتی ایندھن کا جلنا ہے۔ مستقبل میں یورپ مشاہدہ کرنے والے ایسے سیٹلائیٹ کا جال بچھانے کا منصوبہ بنا رہا ہے جس سے وسیع تر علاقے کا تفصیل سے مشاہدہ کیا جا سکے گا۔ یوں مستقبل میں ایسے ملکوں کی نشاندہی کی جا سکے گی جو 2015 ءمیں پیرس میں کیے گئے معاہدے کے تحت کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کریں گے۔