نئے صوبوں کی بحث

233

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں بہت سے لوگ ہیں جو جنوبی پنجاب صوبے کی حمایت کرتے ہیں، ان سے درخواست کریں گے کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بننے دیں۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے جنوبی پنجاب کو علیحدہ تشخص دینے کا وعدہ کیا تھا، ہم نے جنوبی پنجاب صوبے کا بل قومی اسمبلی میں متعارف کروا دیا ہے لہٰذا اب ان جماعتوں کو اس بل کی منظوری میں پی ٹی آئی کا ساتھ دینا چاہیے جو جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے حق میں ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی پہلے ہی سے جنوبی پنجاب صوبے کے نہ صرف حق میں ہے بلکہ وہ اس ضمن میں پی ٹی آئی کے پیش کردہ بل کی حمایت بھی کر رہی ہے لہٰذا توقع ہے کہ وہ صوبہ جنوبی پنجاب بل کی منظوری میں پی ٹی آئی کی غیر مشروط حمایت کرے گی۔ بقول شاہ محمود قریشی جنوبی پنجاب صوبے کے لیے آئین میں ترمیم درکار ہے، ملتان ڈویژن، بہاولپور ڈویژن اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے علاقے جنوبی پنجاب میں شامل ہوں گے۔ شاہ محمود قریشی نے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بہاولپور کو الگ صوبہ بنانے کی قراداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تین اضلاع پر مشتمل صوبے کا قیام بھونڈا مذاق ہو گا لہٰذا مسلم لیگ (ن) کو جنوبی پنجاب صوبے کے قیام میں پی ٹی آئی کا ساتھ دینا چاہیے۔
ہمارے ہاں نئے صوبوں کی بحث ویسے تو کافی پرانی ہے اور اس ضمن میں ملک کے مختلف علاقوں سے نئے صوبوں کے قیام کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں لیکن چونکہ پچھلے ستر سال میں ہمیں شاید ایک دن بھی سیاسی استحکام نصیب نہیں ہوسکا اس لیے نئے صوبوں کے قیام کے اس سنجیدہ موضوع پر کبھی کھل کربات کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی بلکہ بعض اوقات تو اگر کسی نے یہ ایشو چھیڑنا بھی چاہا تو اس پر غداری، بیرونی ایجنٹ ہونے، ملک توڑنے اور نہ جانے کیا کیا الزامات لگائے گئے۔ سوال یہ ہے کہ نئے صوبوں کی بحث چھڑتے ہی مرکزپسند قوتوں کے پسینے کیوں چھوٹنے لگتے ہیں اور انہیں پاکستان کا وجود موم سے بھی کم نرم کیوں نظر آنے لگتا ہے۔ خدا نخواستہ یا خاکم بدہن پاکستان کوئی شیشے کا گھر یا کانچ کا ٹکڑا تو نہیں ہے جو نئے صوبے وجود میں آنے سے کرچی کرچی ہوجائے گا ویسے بھی سائنس کے ساتھ ساتھ منیجمنٹ کا یہ بنیادی اور سیدھا سادا اصول ہے کہ معاملات کو سدھارنے اور بہتر نتائج کے حصول بالخصوص شہریوں کو بہتر معیار زندگی اور بنیادی سہولت دینے کے لیے وسائل اور اختیارات جتنے نچلی سطح پر تقسیم ہوتے ہیں اس کے نہ صرف زیادہ گہرے اور دیر پا نتائج سامنے آتے ہیں بلکہ اس طرز حکمرانی سے لوگوں کا مروجہ سیاسی نظام اور اداروں پر اعتماد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ تقسیم برصغیر کے وقت بھارت کے حصے میں چودہ صوبے آئے تھے جن کی تعداد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب 29ہوچکی ہے جس سے بھارت کمزور ہونے کے بجائے مزید مستحکم ہوا ہے۔ ہم اگر پنجاب اور بنگال کی مثالوں ہی کو لے لیں تو ہمیں اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی بڑے صوبوں کی تقسیم اور ان سے نئے صوبوں کا جنم گھاٹے کے بجائے فائدے کا باعث بنتا ہے۔
یہاں ہمیں اس تلخ حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ برصغیر پاک وہند میں صوبوں اور خاص کر مستحکم انتظامی یونٹوں کی داغ بیل ڈالنے کا سہرا برطانوی حکمرانوں کو جاتا ہے جن کی کوششوں سے برصغیر پاک وہند میں اگر ایک طرف صوبوں کا جال بنا گیا تو دوسری جانب نئے صوبوں کے قیام کا عمل بھی انگریز سرکار کے دور میں شروع ہوا جس کے فیوض وبرکات سے آج بھارت اور پاکستان دونوں مستفید ہو رہے ہیں اس ضمن میں جہاں 1901 میں وجود پانے والے سابقہ شمال مغربی سرحدی صوبے اور موجودہ خیبر پختون خوا کی مثال دی جاسکتی ہے وہاں 1905 میں بنگال جو ان دنوں آبادی اور رقبے نیز انتظامی اور سیاسی لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل صوبہ تھا کی تقسیم کے ساتھ ساتھ بعد ازاںگورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت بہاراور اڑیسہ کے دونئے صوبوں کے قیام کے علاوہ بطور ایک نیا صوبہ سندھ کی بمبئی
سے علیحدگی کو بھی مثالاً پیش کیا جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ پنجاب جو کبھی ہندوستان کا سب سے بڑا صوبہ تھا تقسیم برصغیرکے بعد پہلے مشرقی اور مغربی پنجاب کے دوصوبوں میں تقسیم ہوا اور بعد میں بھارت نے اپنے حصے کے مغربی پنجاب کو پہلے دو اور اب تین صوبوں میں بانٹ رکھا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس ہم نے قیام پاکستان کے آٹھ سال میں ہی گنگا الٹی بہاتے ہوئے پہلے سے موجود پانچ صوبوں کو مشرقی اور مغربی پاکستان کے دو مصنوعی اور غیرفطری صوبوں میں سمیٹ دیا جس کا خمیازہ بعد ازاں ہمیں قیام پاکستان کے محض 24سال بعد سانحہ مشرقی پاکستان کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ شاہ محمود قریشی سے زیادہ اس حقیقت سے کون واقف ہوسکتا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ اگر اسمبلی میں محض ایک بل پیش ہونے سے بن سکتا تھا تو جنوبی پنجاب تو کجا اب تک پاکستان میں انتظامی بنیادوں پر کئی نئے صوبے بن چکے ہوتے لیکن یہ کام چونکہ اتنا آسان نہیں ہے اس لیے پاکستان کی بقاء اور استحکام سے جڑے اس اہم کام کے لیے پاکستان کے تمام نمائندہ طبقات اور ریاستی اسٹیک ہولڈرز کو جذبہ حب الوطنی اور پاکستان کے پسے ہوئے محروم طبقات کو ریاستی معاملات میں ان کا جائز حصہ دلانے کی غرض سے نہ صرف ایک قومی ڈائیلاگ کا آغاز کرناہوگا بلکہ ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک ٹیبل کے گرد بیٹھ کر اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر قومی اتفاق رائے سے مل جل کر حل کرنے کے لیے کوئی مشترکہ لائحہ عمل بھی جتنا جلدی ہوسکے طے کرنا ہوگا۔