مودی کی جیت امن کی ہار؟

228

بھارت میں نریندر مودی نے جھاڑو پھیر اکثریت حاصل کر لی ہے۔ نریندر مودی کی کامیابی قطعی غیر متوقع نہیں تھی مگر کانگریس اس حشر سے دوچار ہوگی کہ بہت سی ریاستوں میں اپنا ایک امیدواربھی کامیاب نہ کراسکے گی اس کی توقع نہیں تھی۔ راہول گاندھی کو کانگریس نے اپنا ’’پوسٹر بوائے ‘‘ بنا کر نوجوانوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ پریانکا گاندھی کا فلسفیانہ اور بے ساختہ انداز گفتگو اس پر مستزاد تھا مگر نہرو خاندان کا جادو سر چڑھ کر بولنا تو درکنار انتخابی نتائج نے کانگریس کو مدتوں تک نہ بھرنے والے زخم دئیے۔ مودی نے اس کامیابی کے تاج محل کی پہلی اینٹ برسوں پہلے اس وقت رکھی تھی جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور ان کی سرپرستی میں ہزاروں مسلمانوں کو تہ تیغ کیا گیا تھا۔ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ جو انسانیت سوز مظالم روا رکھے تھے انہیں یاد کر کے آج بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ مودی کو جب بھی کوئی کامیابی ملتی ہے تو گجرات کے گھائو تازہ ہوجاتے ہیں۔ اس بار جب مودی اپنی سیاست کی سب سے بڑی کامیابی حاصل کر بیٹھا تو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے مودی کے تلخ وتاریک ماضی کا ذکرکرنا لازمی سمجھا۔ مودی نے بہت پُرکاری کے ساتھ ہندو انتہا پسندی کے جراثیم کو بڑھاوا دے کر ایک آندھی اور طوفان بنانے کی حکمت عملی اپنائی تھی ۔ہندو توا کا پودا ہر دور میں مسلمان دشمنی سے نمو پاتا رہا ہے۔ مودی نے ماضی کی اس سوچ پر چلتے ہوئے مسلمان دشمنی اور نفرت کا سودا بیچنے کا آغاز کیا۔ حیرت انگیز طور پر یہ سودا مارکیٹ میں بہت تیزی سے فروخت ہوتا چلا گیا ۔یوں مودی نے گجرات کے انسانوں کی سوختہ لاشوں، راکھ میں بدلتے گھروں ،عزت اور عصمت سے محروم ہوتی ہوئی خواتین کے اثاثے سے نفرت کا جو کریانہ اسٹور گجرات میں کھولا تھا وہ آخر کار پورے بھارت کی وزارت عظمیٰ کی صورت پورے بھارت تک پھیل کر ایک ہول سیل مارکیٹ میں ڈھلتا چلا گیا۔مودی نے گجرات میں نفرت کی جس دکان کی پہلی اینٹ رکھی تھی مودی کی دوسری
بار کامیابی نے اسے نفرت کا محل بنا ڈالا ہے۔ بھارت میں مسلمان دشمنی کے جذبات تو ہمیشہ سے موجود رہے ہیں اور بھارت کی سیاسی جماعتیں ماضی میں ان جذبات سے ڈرتے جھجکتے فائدہ اُٹھاتی رہی ہیں مگر بی جے پی اور نریندر مودی نے ان جذبات کو منظم، منضبط کرکے انہیں سائنس بنا کر فائدہ اُٹھانے کی حکمت عملی اپنائی۔ سیاسی ضرورتوں اورانتخابی مقاصد کے تحت اپنائی گئی یہ حکمت عملی بہت سی وجوہات کی بنا پر کامیاب ہوتی چلی گئی۔ جن میں ایک وجہ اس سوچ کو بیرونی حامیوں اور معاونین کا ملنا بھی ہے۔ وہ اس طرح کہ دنیا میں بہت سے ملکوں بالخصوص مغرب میں اسلامو فوبیا کا غبار اُٹھانے والی سوچ کی لہریں بھی پورے زوروں پر ہیں۔ امریکا اور اسرائیل نے مودی کی ہندو شاونسٹ سوچ کو اپنی سوچ اور ہم آہنگی اور بڑی حد تک ضرورت کے تحت قبول کیا ۔گجرات کے قتل عام کے باعث جس مودی کا امریکا میں داخلہ بند تھا وہ وقت بدلتے ہی امریکا کا مہمان خصوصی بنا۔ یہی حال مغرب کے ان تمام ملکوں کاہے جو عدم تشدد ،امن عالم ،عالمی دہشت گردی اور انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کا چورن صبح وشام بیچتے ہیں۔ بیرونی
دنیا میں اس حیرت انگیز قبولیت نے نریند ر مودی کو اپنی انتہا پسندانہ سوچ کی پگڈنڈی پر سفر جاری رکھنے میں مدد فراہم کی۔ نریندر مودی کی کامیابی پر دنیا بھر کے حکمرانوں اور رہنمائوں نے مبارکباد کے پیغام بھیجے خود پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان بھی ان میں شامل تھے مگر اس تاریخی موقع پرجو پیار، والہانہ پن اوربے تکلفی کا انداز اسرائیل کے وزیر اعظم نتین یاہو کے ٹویٹ میں جھلک بلکہ اُمڈ رہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔یوں لگ رہا ہے کہ اسرائیل کو اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے ایک مسیحا نفس مل گیا ہے۔اس محبت بھرے ٹویٹ میں مودی کے لیے ’’پیارے دوست ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ بھارت کے ووٹر کے لیے پاکستان مخالف اور مسلمان دشمنی کی فضا اس انداز سے قائم ہو چکی تھی کہ گائے جیسا بے زبان جانور انسانوں سے زیادہ عزت، عظمت اور توقیر پا نے لگا تھا۔ گائے کی شان میں معمولی سی گستاخی پر انسانوں کو جان سے مارڈالنے اور ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے کے واقعات عام ہونے لگے۔ مودی کی سیاست کو بیرونی قبولیت اور سرپرستی حاصل نہ ہوتی تو شاید ہی وہ سیاست کی راہوں پر زیادہ دور تک چل سکتے اور اس قدر بڑی کامیابی ان کا مقدر ٹھیرتی۔ مودی انتخابات میں جیت گیا مگر عمومی تاثر یہی ہے کہ جنوبی ایشیا کی امن اور استحکام کی منزل دور ہوگئی ہے اور امن ہار گیا ہے گو کہ وزیر اعظم عمران خان نے مودی کو انتخابی کامیابی پر مبارکباد بھی دی اور جواب میں مودی نے عمران خان کا شکریہ بھی ادا کیا مگرمودی کا ماضی بتا رہا ہے کہ وہ اپنا سخت گیری کا امیج ،سوچ اور لائن ترک کرنے تیار نہیںہوں گے۔ نریندر مودی اس خیرہ کن کامیابی کے بعد اب کون سا راستہ اختیار کریں گے اس سوال پر مبنی ایک طویل مضمون نیویارک ٹائمز نے شائع کیا ہے۔ مضمون کا عنوان ہےModi,s Huge Mandate in India .Now What will He DO?۔ اس سوال جواب کا تلاشتے ہوئے مضمون میں مودی کی متوقع داخلی اور خارجی پالیسیوں کا جائزہ لیا گیا ہے ۔نریندر مودی کس ملک سے تجارت بڑھاتے اور کس سے سفارتی تعلقات مضبوط کرتے ہیں ،وہ بھارت کے اندر ہندو نیشنلزم کی طرف لڑھکتے ہیں یا بدستور مذہبی انتہا پسندی کی راہ پر چلتے ہیں؟وہ اقلیتوں کے لیے اچھے ثابت ہوتے ہیں یا بُرے؟وہ بھارت کی اقتصادیات کو کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں؟ ان سارے سوالوں سے ایک پاکستانی کا لینا دینا نہیں کیوں کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں کی پاکستان پالیسی تاریخ سے یا پھر فوجی ذہنیت سے طاقت اور رہنمائی کشید کرتی ہے۔ اس مضمون میں ایک پاکستانی کی دلچسپی کاحصہ صر ف یہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’کشمیر کی ہمالیائی ریاست جس پر پاکستان اور بھارت دونوں کا دعویٰ ہے،میںمودی اپنا کنٹرول مزید سخت کرنے کی حکمت عملی اختیار کرسکتے ہیں۔اس وقت بھی کشمیر میں بھارت کی بڑی فوجی تعداد کشمیر میں تعینات ہے اور اس سخت گیری کے نتیجے میں مزاحمت بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ بی جے پی کی سوچ کے مطابق اس پالیسی کے تسلسل میںکشمیر پرمزید دبائو کا مطلب بھارت کی اپنے ایٹمی ہمسائے اور حریف کے ساتھ مزید کشیدگی ہوگا‘‘۔ پاکستان کواس تبصرے کی دوربین میں مودی کی حرکات وسکنات کو دیکھتے رہنا چاہیے۔