آہ ادریس بختیار

202

یشنل لیبر فیڈریشن کے مرکزی صدر جناب شمس الرحمن سواتی کے ساتھ ان کے ایک دوست کے ہاں افطار ی کے وقت پی ایف یو جے دستور کے صدر محترم نواز رضا کی ٹیلی فون کال آئی‘ اور اطلاع دی کہ ادریس بختیار انتقال کرگئے ہیں‘ یک دم ایک جھٹکا سا لگا‘ فوراً مظفر اعجاز صاحب کو فون کیا‘ معلوم کیا تو کہنے لگے کہ خیریت نہیں ہے‘ اور ساتھ ہی تصدیق کی کہ ادریس بختیار انتقال کرگئے ہیں ابھی دو ہفتے قبل جب وہ اسلام آباد آئے تو ان سے تین ملاقاتیں ہوئیں‘ وہ اپنی صاحب زادی کے ہاں چک شہزاد کے قریب ٹھہرے ہوئے تھے‘ اس کے بعد ان کے اعزاز میں پریس کلب میں پی ایف یو جے دستور کے صدر نواز رضا نے چائے کا اہتمام کیا‘ اس محفل میں محسن رضا خان‘ جناب سید سعود ساحر‘ شکیل ترابی‘ ظفر محمود شیخ‘ مطہر اقبال‘ خاور نواز راجا اور دیگر احباب شریک ہوئے‘ اس محفل میں صحافتی کارکنوں کی مشکلات‘ ویج بورڈ سمیت حالات حاضرہ کی صورت حال پر بہت گفتگو ہوتی رہی‘ اور اس کے بعد ان کے اعزاز میں شکیل ترابی نے افطار ڈنر دیا‘ ضرار خان‘ جاوید اقبال قریشی سمیت اور بہت سے دوست شریک ہوئے‘ ان تینوں ملاقاتوں میں کہیں یہ محسوس تک نہیں ہوا کہ وہ یوں ہمیں اچانک چھوڑ جائیں گے‘ ان کی صحت تو کافی عرصہ سے خراب تھی لیکن اندازہ نہیں تھا کہ جلد کوئی حادثہ ہوجائے گا‘ ابھی کچھ عرصہ قبل ان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تھا‘ ٹیلی فون پر ان سے گفتگو ہوئی‘ بڑی دیر تک وہ اپنی والدہ کی باتیں کرتے رہے‘ مرحوم بہت ہی حساس طبیعت کے مالک تھے ادریس بختیار پاکستان کی صحافت کا ایک ایسا نام ہے جو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا وہ 14 مئی 1945 ء کو پیدا ہوئے ان کی عمر 74 برس تھی۔ادریس بختیار اپنے منفرد طرز تحریر کی وجہ سے اپنا علیحدہ مقام اور استاد کا درجہ رکھتے تھے مرحوم بہت ہی غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے وہ پاکستان کی صحافت کا واقعی ایک بڑا نام تھے انہوں نے صحافت کو ہمیشہ ایک مشن سمجھا اور ساری زندگی اپنے قلم سے ملک و قوم کی خدمت کرتے رہے وہ جتنا عرصہ حیات رہے،اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنے ہم وطنوں کی فکری سطح کو بڑھانے اور ان کے ذوق کی آبیاری کرنے میں مصروف رہے اُن کے مزاج میں سنجیدگی بھی تھی،شوخی بھی تھی انہوں نے کسی ناکامی کو اپنی کامیابی کے راستے میں حائل نہیں ہونے دیا‘ ان کے عزم اور مضبوط قوت ارادی نے انہیں کبھی شکستہ دل ہونے نہیں دیا ادریس بختیار بدھ کی شام کراچی میں انتقال کرگئے ان کے انتقال پر ملک بھر کی صحافتی برادری میں سوگ طاری ہوگیا۔ مرحوم کراچی پریس کلب کے سینئر رکن بھی تھے، جبکہ وہ جولائی 2011سے ستمبر 2014 تک پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (دستور) کے صدر رہے اور پاکستان کی صحافتی تاریخ کو ایک نیا موڑ دیا‘ صحافت کو ہمیشہ مشن سمجھا اور اصولوںپر کبھی سودے بازی نہیں کی وہ جس محفل میں ہوتے جانِ محفل بن جاتے،اپنی شوخیوں اور بزلہ سنجی سے محفل کو زعفران زار بنادیتے،اداس لوگوں کو خوش کرنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔ اپنی دلچسپ باتوں اور بھرپور شخصیت سے لوگوں کے دل جیت لیتے ان کے اندر وطن سے محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔ملک کے وقار اور اس کی سربلندی کے لیے وہ ہر طرح کی تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرلیتے مگر وطن کے مفاد پر آنچ نہ آنے دیتے۔ انہیں طرح طرح کے مصائب کا سامنا کرنا پڑا بھٹو کے زمانے میں انہوں نے جن مصائب کو دیکھا‘ صحافتی ٹریڈ یونیز کی مشکلات کو ان سے بہتر کوئی اور نہیں جانتا تھا‘ ان کے انتقال سے دنیائے صحافت میں جو خلاء پیدا ہوا وہ پُر ہونا نا ممکن ہے۔ان کی ناگہانی موت پر پی ایف یو جے(دستور) اور دیگر تمام عامل کارکن سبھی افسردہ ہیں پی ایف یو جے دستور کے کارکنوں کے لیے ان کا قیمتی مشورہ اور ہنمائی ہمیشہ حاصل رہی ان کا ہمارے درمیان سے اچانک اٹھ جانا بہت بڑا نقصان ہے جسے صحافتی حلقوں میں قومی سطح پہ محسوس کیا جائے گا وہ پاکستان کے اخبار نویسوں میں ایک ممتاز حیثیت کے مالک تھے اور ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوگیا ہے وہ فی الحال پُر ہوتا نظر نہیں آتاپاکستان کی صحافت میں ان کا نام سرفہرست رہے گا اور تاریخ میں ان کی صحافتی خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی۔