چین امریکا تجارتی جنگ سے آگے کی باتیں

274

 

 

چین اور امریکا کے درمیان ہماری ماضی کی فلمی اداکارائوں کی طرح اس وقت ’’نمبر ون‘‘کی دوڑ جا ری ہے۔ نمبر ون کی یہ دوڑ تجارت کے میدان میں تو جاری ہی تھی ہی اب اس کے اثرات عسکری محاذ پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ جنوبی چین کے جزائر اور پانیوں میں امریکاا اپنی بالادستی کو کئی علاقائی ملکوں کے ساتھ مل کر نہ صرف جاری رکھنا چاہتا ہے بلکہ اس میں ایک نئے شراکت دار بھارت کا گہرا عمل دخل اور اثر رسوخ بھی چاہتا ہے۔ چین نے نہایت خاموشی مگر سُبک رفتاری کے ساتھ اپنی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کا عمل جاری رکھا۔ یہاں تک کہ اس کی معاشی ترقی اس وقت آشکار ہوئی جب وہ دنیا کی اقتصادی گاڑی کی فرنٹ سیٹ کے قریب پہنچ چکا تھا۔ امریکا ایک مقام پر آکر چین کی اقتصادی ترقی کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کرنے کو تیار تھا مگر ٹرمپ کے آنے کے بعدامریکا نے اس حقیقت سے لڑنے اورایک تاریخی اور تدریجی عمل کو ریورس گیئر لگانے کی ٹھان لی۔ امریکا نے چینی مصنوعات پر محصولات کی شرح بڑھانے اور اسے تجارتی رعائتیں دینے کا سلسلہ ختم کر دیا۔ امریکا نے یہ پالیسی پہلی بار اور صرف چین کے لیے ہی نہیں اپنائی بلکہ اس سے کینیڈا اور میکسیکو بھی اس پالیسی کی زد میں آتے رہے اور جواباََ امریکا کو اسی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ۔چین کا معاملہ ماضی کے اس واقعات سے اس لحاظ سے مختلف تھا کہ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت تھا اور اس کے لئے اقتصادی مشکلات صرف چین تک محدود نہیں رہ سکتیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک کو متاثر کر نے کا باعث بن سکتی ہیں۔چین نے جوابی حکمت عملی کے طور پر امریکی مصنوعات پر محصولات کی شرح بڑھا دی اور یوں دونوں کے درمیان اقتصادی میدان میں ادلے کا بدلہ کا اصول مروج ہوگیا۔ دونوں کے درمیان اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے مذاکرات اور بیک ڈور ڈپلومیسی بھی جاری ہے مگر دونوں اپنی اپنی روش پر قائم بھی ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اس کشمکش میں چین کا نقصان امریکا کی نسبت زیادہ ہے۔ اس کے اثرات چین کی اسٹاک مارکیٹ پر بھی اپنا اثر منفی انداز میں چھوڑ رہے ہیں۔ چین کی قیادت اب بھی پراعتماد لہجے میں کسی منفی اثر کی تردید کر تی چلی آرہی ہے۔ یہ اقتصادی جنگ اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ یہ دنیا کی پہلی اور دوسری بڑی معیشت کے درمیان جا ری ہے ۔ اسی لحاظ سے اس کا حجم اور شدت بھی زیادہ ہے ۔ اس اقتصادی جنگ کا ایک محاذ پاک چین اقتصادی راہداری بھی ہے جسے روکنے کے لیے امریکا بھارت کے ساتھ مل کر پورا زور بازو صرف کیے ہوئے ہے ۔حسب ضرورت کئی دوسرے علاقائی ملکوں کو بھی سی پیک مخالف کیمپ میں جگہ دی گئی ہے ۔اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے وسائل کو پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ امریکا اس منصوبے کو چین کے اقتصادی اور عسکری مستقبل کے حوالے سے اہم اور فیصلہ کن سمجھ کر اپنے ترکش کے سارے تیر ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہی جنگ اب عسکری محاذپر بھی تیز ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔حد تو یہ چین نے اپنے روایتی دھیمے پن کے برعکس تلخ انداز اپنانا شروع کیا ہے۔ جس کا ایک ثبوت دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع کے درمیان سنگا پور میں ہونے والی لفظی جنگ ہے۔ سنگا پور میں مباحثہ برائے عالمی سیکورٹی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع پیٹرک شناہن نے اپنے خطاب میں چین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکا خطے میں چین کے رویے کو خاموشی سے برداشت نہیں کرے گا ۔امریکی وزیر دفاع کا لہجہ سخت مگر انداز مفاہمانہ تھا ۔دوسرے ہی روز اسی ڈائس اور اسی فورم پر فوجی وردی میں ملبوس چینی وزیر دفاع جنرل وئی فنگے نے امریکا کو بے نقط سناڈالیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تائیوان چین کے لیے مقدس سرزمین ہے امریکی بحریہ جنوبی چین کے سمندروں اور تائیوان میں مداخلت سے باز رہے اگر اس معاملے میں مداخلت کی گئی تو چین آخری حد تک لڑے گا۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ تائیوان کو حاصل کرنے کے لیے طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔ چین کو تقسیم کرنے کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہو گی۔ امریکا ناقابل تقسیم ہے تو چین بھی ناقابل تقسیم ہے۔ چینی وزیر دفاع کا یہ لب ولہجہ قطعی نیا اور حیران کن ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان معاملات میں شدید بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔ دونوں کے درمیان غلط فہمی کی شدت بھی بہت زیادہہے۔اس غلط فہمی کا خمیازہ پاکستان برسوں سے یوں بھگت رہا ہے کہ امریکا پاک چین اقتصادی راہداری کو کسی طور ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کو تیار نہیں اور اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کی بھرپور سرپرستی ہورہی ہے ۔امریکا تائیوان کو چین کا نرم پیٹ بنا کر اس کی چٹکیاں لے رہا ہے اور چینی تجزیہ نگار اس معاملے کی سنگینی کا اس انداز سے برملا اظہا کر رہے ہیں کہ یہ اگلے برس دونوں ملکوں کے درمیان یہ کھینچا تانی باقاعدہ تصادم کی شکل میں بھی ڈھل سکتی ہے۔ ٹرمپ نے تین برس قبل برسر اقتدار آنے کے بعد تائیوان کے سربراہ کو براہ راست ٹیلی فون کیا تھا جس پر چین نے شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے سفارتی آداب وروایات کی خلاف ورزی اور چین کی خودمختاری کی توہین کہا تھا۔اس کے بعد سے تائیوان امریکا اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی کا محور بن کر رہ گیا ہے۔ تائیوان کے نام پر امریکا کا بحری بیڑہ علاقے میں موجود ہے اور چین اسے اپنے لیے مستقل خطرہ قر ار دے رہا ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس کشیدگی پر تجزیہ نگاروں کا اتفاق ہے کہ امریکا تائیوان کو چین کی کلائی مروڑنے کے لیے استعمال کرنے سے باز آنے کے بجائے اس عمل کو مزید تیز کر ے گا۔ یہ حقیقت میں چین کے نمبرون بننے کی راہ کا ایک اسپیڈ بریکر ہے اور چین اس اسپیڈ بریکر کو توڑتا ہوا نکل گیا تو ایک معمولی سی غلط فہمی خطے کو تصادم کا شکار کر سکتی ہے۔ اسی خطرے او ر خدشے کو چینی وزیر دفاع نے اپنے خطاب میں لفظوں میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے تائیوان کو چین کے لیے مقدس کہہ کر اپنی حکمت عملی کا خلاصہ بیان کر دیا ہے گویا کہ تائیوان دونوں ملکوں کے فلش پوائنٹ کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔