فاطمہ حسن کے ایک شعر سے آغاز کرتے ہیں :
کتنے اچھے لوگ تھے کیا رونقیں تھیں ان کے ساتھ
جن کی رخصت نے ہمارا شہر سونا کردیا
کیا زمانے تھے۔ انتیسواں روزہ کھولا اور نظریں آسمان پر ۔گھروں کی چھتوں ، کھلی جگہوںاور میدانوں میں میلے کا سماں ہوتا تھا۔ ’’وہ رہا‘‘کسی نے تیز آواز میں کہا اور سب اس کے پیچھے ’’مجھے بھی دکھا، مجھے بھی دکھا‘‘۔ پشت سے ہمجولی نے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور انگلی کی سیدھ میں اشارہ کرتے ہوئے کہا’’دیکھ وہ رہا‘‘۔ ’’ہائے مجھے تو نظر نہیں آرہا ‘‘۔’’ہاں !پتا نہیں کہا ں چلا گیا ابھی تو یہیں تھا ‘‘۔یکدم کسی اور طرف سے شور اٹھ گیا ’’وہ رہا وہ رہا چاند‘‘۔ دو چار کو اورچاند نظر آگیا۔ چلیے اگلے دن عید ہوگئی۔ اس زمانے میں رویت ہلال کمیٹی تو ہوتی نہیںتھی۔ ریڈیو سے فلمی گانے نشر ہونے لگتے تھے۔ ’’عید کا دن ہے گلے ہم کو لگا کر ملیے ،رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے‘‘۔ اور یہ پنجابی گانا ’’چن دے چن سامنے آگیا، میں دوواں تے صدقے جاواں،سو ہنیو ،ہیریو عید مبارک‘‘۔ یا پھر یہ ’’عید کا چاند دکھائو تو مزہ آجائے‘‘۔ چوڑیاں کھنکنے لگتیں، پکوان چڑھنے لگتے۔ بیوٹی پارلر تو تھے نہیں۔ گھروں میں ہی مہندی لگا لی جاتی تھی۔ اتنے میں ابا جان بازار سے آجاتے۔ سارے گھر میں شور مچ جاتا ۔یہ اس کا جوتا ،یہ اُس کے کپڑے۔بیگم کے گہنے چھپاکر جیب یا رومال میںلائے جاتے تھے۔’’ہائے منی کو تو اپنے کپڑے پسند نہیں آئے ‘‘۔اس زمانے میں بھی بچے ’’راڑ‘‘کرتے تھے لیکن عام طور پر والدین جو لے آتے پہن لیتے۔ نیا سوٹ پہن لینا ہی جشن تھا ۔
چھوٹے چھوٹے گھر تھے بڑی بڑی خوشیاںتھیں۔ ٹیلی فون تھا نہ بجلی اور گیس۔ ان کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی تھی اور نہ زندگی کے سکھ چین کا ان سے کوئی تعلق تھا۔ سادہ غذائیں تھیں۔ ابلا ہوا ،فلٹر واٹر، منرل واٹر، جو روگ آج پا ل لیے گئے ہیں اس زمانے کے لوگ زندہ ہو جائیں تو دیکھ کر دوبارہ مرجائیں ۔گھر کے ایک کونے میں گھڑے رکھے ہوتے تھے ۔ماشکی علی الصبح انہیں بھردیتا۔ پیاس لگی، گھڑے کے پاس گئے ،کٹورا بھرا اور غٹا غٹ پی گئے ،چلیے اللہ اللہ خیر صلا۔ مجال ہے کبھی پیٹ خراب ہوا ہو۔ زیادہ ہی لطافت مقصود ہوئی تو صراحی رکھ لی ۔وہ بھی کسی کسی گھر میں۔ گائوں دیہاتوں میںکنویں محض پانی بہم نہ پہنچاتے تھے پیار کی کہانیاں بھی یہیں جنم لیتی تھی ۔
چوری چکا ری شاذ ہی سننے میں آتی تھی۔ کلا شنکوف ،فائرنگ، ناکے،خطرے اور خوف کے زمانے نہیں تھے۔ لاٹھی ڈنڈا واحد ہتھیار ہوتاتھا۔ لڑائی میں چاقو چل جانا مہینوں اور برسوں یاد رکھا جاتا تھا ۔گراری دار چاقو کی کڑکڑاہٹ سے اچھے اچھوں کا پتّا پانی ہوتا تھا۔لوگ بیمار بھی کم ہوتے تھے ۔اگر کچھ ہوابھی تو معمولی جھاڑ پھونک ، ٹو ٹکوں ورنہ حکیم کی دواسے ٹھیک ہوجاتے تھے ۔ ڈاکٹر کو دکھا دیا اور اس نے سوئی بھی لگادی تو سمجھیے بیماری کی شدت اور علاج معالجے کی حد ہوگئی ۔ لو گ سورج کے ساتھ ساتھ اُٹھتے تھے۔ شام سے پہلے پہلے ہی کام پورے کر لیتے تھے ۔اس کے بعد بیٹھکیں اور دوست یاروں کی محفلیں ۔پیاروالے گیت،ٹپے،ما ہیے۔ میٹھے بول، چھوٹے بڑوں کا ادب احترام ۔
راستو کیا ہوئے وہ لوگ کہ آتے جاتے
میرے آداب پہ کہتے تھے کہ جیتے رہیے
مائوں جیسی چھائوں والے بوڑھے درخت ہوتے تھے اور ان سے وابستہ بچپن کی یادیں، ڈال ڈال چڑھنااترنا، جھولا ،پینگیں اور پیار محبت کے قصے ۔کھری سچی محبتیں ۔ یاروں دلداروں کا ساتھ ۔ دکھ درد میں شریک ۔ایک دوسرے کی خاطر مرنے مارنے پر تیار۔ہیر رانجھے کی دلداریاں ،سوہنی مہینوال کی کہانیاں۔پان کی گلوریاں اور حقوں کی گڑ گڑاہٹیں۔ لوگ انہیں سے لذت اور نشے کشید کرتے تھے۔سب ایک دوسرے سے واقف، سات پیڑھیوں سے آگاہ۔ باتوں باتوں میں رشتے طے ہوجاتے تھے ۔ بچے بھی خوشی خوشی قبول کرلیتے تھے۔ بزرگوں کے رشتے طے کرنے پر نئی نسل کا جو احتجاج دکھایا جاتا ہے یہ فلموں اورکہانیوں کے قصے ہیں۔ سیکڑوں ہزاروں میں ایک آدھ واقعہ ہوگیا تو ہوگیا ۔ورنہ جہاں بڑوں نے زبان دے دی، دے دی ۔ رشتے رواروی میںطے ہوتے نظر آتے تھے لیکن ایسا نہیں تھا۔ ہر ہر پہلو سے سوچ بچار کر کے زبان کھولی جاتی تھی۔ لڑکے لڑکی کا جوڑ دیکھا جاتا تھا ،خاندان دیکھا جاتا تھا۔ آج کل کی طرح اسٹیٹس سے شادی نہیں ہوتی تھی۔ شادی بیاہ میںجسم وجان کو دق کرنے والی مصروفیات نہیں تھیں۔ لڑکی کو سہیلیوں نے گاتے بجاتے ،ہنستے ،کلکا ریاں مارتے تیا ر کردیا۔ دولہا نے نہا دھو کر نئے کپڑے جوتے پہن لیے۔ گھوڑے پر بارات جاتی تھی ۔باراتی پیدل ہوتے تھے ۔آگے آگے شہنائی اور ڈھول تاشے۔ ہر کوئی ناچ رہا ہے ،گا رہا ہے ،خوش ہورہا ہے، قہقہے بلند ہورہے ہیں۔ رخصتی ہو یا ولیمہ دن میں ہوتے تھے۔ کھانے پکوان ہاوس سے پک کر نہیں آتے تھے ۔علی الصبح نائی آجاتا تھا۔ دیگیں کھڑ کنے لگتی تھیں۔ صاحب خانہ اپنے سامنے کھڑے ہوکر پکواتے تھے ۔
کو لیسٹرول،انجا ئنا ،بلڈ پر یشر ،ہارٹ اٹیک ، اور نہ جانے کیا کیا الا بلا گھر گھرجن کا ڈیرہ ہے اس زمانے میں کسی دوسرے سیارے کے عذاب تھے۔ گھر کا اصلی گھی ہوتا تھا۔ دودھ اور مکھن۔ زندگی میں چلت پھرت اور صحت تھی۔ لوگ نیک خو تھے ۔شرم اور حیا تھی۔ جرنیل، کرنیل، اسٹیبلشمنٹ، سیاست دان، جمہوریت اورالیکشن کی فریب کاریاں تھیں اور نہ دلوں میں میل تھا۔ ایسا نہیں کہ اس زمانے میں سب فرشتے تھے کہنا یہ ہے کہ زندگی اتنی پیچیدہ اور دشوار نہیں تھی۔ سادگی تھی۔ شہرجو بے حدوحساب پھیل گئے ہیں تب اتنے بڑے نہیں تھے ۔کراچی میںٹرامیں چلتی تھیں اور اتنی سست رفتار کہ چلتی ٹرام سے لوگ چڑھ اتر جاتے تھے ۔لوگ عمو ماً چھتوں پر سوتے تھے۔ جب بجلی آئی تو اکا دکا گھروں میں چھت پرلائن سے چارپائیاں بچھا کر پیڈسٹل فین کھول کر سونے لگے۔ ہر کوئی پنکھے کے پاس والی چارپائی پر سونا چا ہتا تھا۔ اس زمانے میں تمام مائوں میں ایک قدر مشترک تھی۔ وہ پنکھے سے دور سب سے آخری چارپائی پر سوتی تھیں۔ انہیں پنکھے کی ہوا سے ٹھنڈ لگتی تھی۔ ہر طرف سبزہ اور ہریالی تھی۔ جہاں دیکھیے درخت ہی درخت پھل دار ،سایہ دار۔ آج جیسے نہیں ۔نہ پھل نہ سایہ بس شجر کاری کا ڈھوم دھڑکا۔ باہر کھانے کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ہوٹل کم اور بہت کم ہوتے تھے۔ ایرانی ہوٹلوں کا شمار اچھے ہو ٹلوں میں ہوتا تھا ۔عید کے موقع پر بھی ایسی ہی سادگی نظر آتی تھی ۔وہ جو احمد مشتاق نے کہا تھا
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
رشتے دار قریب قریب رہتے تھے ۔بچے صبح ہی صبح تیا ر ہوئے، اُچھلتے کودتے اس گھر جا اس گھر جا ۔عیدبچوں کے لیے عیدی جمع کرنے، آئسکریم کھانے، بوتل پینے، بار بار پیسے گننے اور کتنے باقی بچے کی فکر کا نام تھا۔ بڑے سینما گھروں کا رخ کرتے تھے۔ فلم دیکھنا بڑی عیاشی تھی۔ خیال رہے یہ سو دوسو برس پہلے کی نہیں چالیس پچاس سال اِدھر کی دنیا تھی۔ قارئین کو عید مبارک