اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام پر حملے ’’معمول‘‘ بنتے جارہے ہیں اور ان حملوں پر معاشرے کی خاموشی بتارہی ہے کہ پاکستان میں اہل مذہب کی اکثریت کے لیے مسئلہ واقعتا اسلام نہیں اسلام آباد ہے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔
اسلام اور علما پر حملے کی تازہ ترین واردات 27 مئی 2019ء کی رات جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں پیش آئی۔ سوال یہ ہے کہ اس پروگرام پر گفتگو کا آغاز کہاں سے کیا جائے؟
27 مئی 2019ء کے رپورٹ کارڈ میں ایک مسئلہ یہ زیر بحث تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر اور عمران خان کے نفسِ امارہ فواد چودھری نے رویت ہلال کے حوالے سے ایک کلینڈر تیار کرالیا ہے۔ چناں چہ سوال یہ ہے کہ رویت ہلال کے سلسلے میں یہ کیلنڈر بروئے کار لایا جائے یا رویت ہلال کا روایتی مذہبی اور شرعی طریقہ استعمال کیا جائے۔ اسی حوالے سے پروگرام کی میزبان نے پروگرام کی ایک مہمان ریما عمر سے سوال کیا۔
’’ریماکیا آپ (سلیم) صافی صاحب سے اس بات پر اتفاق کریں گی؟‘‘
اس سوال کا ریما نے جو جواب دیا اس کا اہم ترین حصہ یہ تھا۔ ریما عمر نے کہا۔
جواب:’’ ہم افطار گھڑی دیکھ کر کرتے ہیں یا چاند دیکھ کر کرتے ہیں؟ نماز گھڑی دیکھ کر پڑھتے ہیں یا چاند دیکھ کر کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے ہر چیز میں سائنس پر Rely (انحصار) کرتے ہیں۔ تو اس کو ایک Ego کا Issue بنا کے پتا نہیں اس پر کیوں اتنی بحث ہورہی ہے اور جو مذہب اور سائنس تو ٹھیک ہے چند چیزوں میں آپ بحث کرسکتے ہیں کہ دونوں کا Role ہے لیکن ایسی چیزوں میں تو فضول میں ہم ان Contradiction میں ڈال رہے ہیں اور یہ صرف اس بات پر نہیں ہے ہر چیز میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے جو علما حضرات ہیں وہ کہتے ہیں کہ نہیں یہ مذہب کا معاملہ ہے۔ بچوں کی شادی کا معاملہ آپ دیکھ لیں۔ یہ پورا reproduction کا issue ہے۔ آپ کا societal issue ہے۔ آپ کی health کا issue ہے۔ اس کو بھی مذہب کا issue بنادیا۔ اور میرا خیال ہے over all یہ آپ اس سے پہلے شروع کریں۔ لیکن یہ اس سے زیادہ لمبی بحث ہے کہ کیا ہم نے Enlightenment کی طرف روشن خیالی کی طرف جانا ہے یا ہم برصغیر میں خاص طور پر مذہب جو ہے ہمیں Dark Ages (تاریک ادوار) میں لے کے جارہا ہے‘‘۔
ریما عمر کے ان خیالات کے تجزیے سے پہلے جان لیجیے کہ زیر بحث اور جیو کے پروگرام کی مہمان ریما عمر یقینا وہی ریما عمر ہیں جنہوں نے چند ماہ پہلے روزنامہ ڈان کراچی میں پورے صفحے کا ایک مضمون لکھا تھا۔ انہوں نے اس مضمون میں ہم جنس پرستی کی حمایت کی تھی اور کہا تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دے کر ایک کارنامہ انجام دیا ہے اور علاقے کے دیگر ملکوں کی سپریم کورٹس کو بھارتی سپریم کورٹ کی پیروی کرنی چاہیے۔ اب یہی ریما عمر جیو کے پروگرام میں فرما رہی ہیں کہ برصغیر میں مذہب ہمیں Dark Ages دور ظلمات یا تاریک ادوار کی طرف لے جارہا ہے۔ اگرچہ ریما عمر نے اپنی گفتگو میں ’’مذہب‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے لیکن چوں کہ پروگرام میں پاکستان کے حوالے سے اسلام ہی زیر بحث تھا، چناں چہ ریما عمر کی بات کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام برصغیر میں ہمیں Dark Ages کی طرف لے جارہا ہے۔ Dark Ages یورپی تاریخ کی اصطلاح ہے اور اس کا مطلب وہ زمانہ ہے جب یورپ پر عیسائیت کا غلبہ تھا۔ عیسائیت کے اسی غلبے کو یورپ کی عقل پرستی نے چیلنج کیا اور عیسائیت کے غلبے کا خاتمہ کرکے اسے ریاست و سیاست اور علوم و فنون کے مرکز سے بے دخل کردیا۔ عیسائیت اور مذہبیت کی اس شکست کو یورپ میں روشن خیالی یا Enlighaenment کی فتح قرار دیا جاتا ہے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس سے بڑا سانحہ بلکہ المیہ کوئی ہوسکتا ہے کہ ملک کے ایک بڑے چینل پر بیٹھ کر ہم جنس پرستی کی حمایت کرنے والی ایک خاتون دھڑلے سے یہ کہہ رہی ہے کہ اسلام ہمیں برصغیر میں تاریک خیالی کی طرف لے جارہا ہے؟ کیا سابق سوویت یونین میں یہ ممکن تھا کہ کوئی کہے مارکسزم ہمیں تاریک خیالی کی طرف لے جارہا ہے؟۔ کیا چین میں کوئی کہہ سکتا ہے کہ سوشلزم یا مارکسزم ہمیں Dark Ages کی طرف لے جارہا ہے؟ کیا امریکا اور یورپ میں یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص امریکا یا یورپ کے کسی بڑے چینل پر بیٹھ کر کہے کہ سرمایہ داری، جمہوریت یا آزادی کا مغربی تصور ہمیں Dark Ages کی طرف لے جارہا ہے؟ ناممکن! سو فی صد ناممکن۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دھڑلے سے کہا جارہا ہے کہ برصغیر میں اسلام یا مذہب ہمیں Dark Ages میں لے جارہا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جیو نے آئی ایس آئی کے ایک سربراہ کو حامد میر پر حملے کا ذمے دار قرار دیا تو جیو کی نشریات پورے ملک میں معطل ہوگئیں۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ آئی ایس آئی بھی ’’مقدس‘‘ ہے اور اس کا سربراہ بھی۔ مگر اللہ اور محمدؐ کا لایا ہوا دین اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’’مقدس‘‘ نہیں جس کے جی میں جو آئے اسلام کے حوالے سے کہہ سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کا کوئی والی وارث نہیں۔
ریما عمر کی یہ منطق بھی عجیب ہے کہ ہم افطار کرتے ہیں تو گھڑی دیکھ کر، نماز پڑھتے ہیں تو گھڑی دیکھ کر، مگر عید کرتے ہیں تو چاند دیکھ کر، کیلنڈر دیکھ کر نہیں۔ ارے بھئی اگر مسلمان افطار اور نماز میں ’’پہر‘‘ اور اس حوالے سے گھڑی کی پابندی کرتے ہیں تو اس لیے کہ دین کا یہی حکم ہے۔ ’’چاند کی رویت‘‘ مفتی منیب الرحمن یا علما کی ’’ایجاد‘‘ نہیں قرآن و حدیث کا قانون ہے۔ قرآن و حدیث رویت کو لازمی قرار نہ دیتے تو مسلمان ہرگز بھی رویت کے اصول کی پابندی نہ کرتے۔
ریما عمر نے اسلام کو Dark Ages میں لے جانے والی قوت قرار دے دیا تھا تو پروگرام کے شرکا میں سے کوئی اس کا نوٹس لے لیتا مگر مذہب پسند کہلانے والے ’’سلیم صافی اور میاں نواز شریف کے پرستار حفیظ اللہ نیازی صاحب بھی خاموش رہے۔ یہاں تک کہ میزبان ابسا کومل بھی اسلام پر حملے کے حوالے سے نہ چونکیں۔ حالاں کہ انہیں ادارے یعنی جیو کی نمئاندگی کا حق ادا کرنا چاہیے تھا۔ اس کے برعکس انہوں نے ریما عمر کے ہولناک فقرے کے بعد جو کچھ کہا وہ یہ تھا۔
’’بالکل آپ سمجھتی ہیں کہ اس پر سائنس پر Rely کیا جاتا ہے۔ ایک Simple سا معاملہ ہے اس کو Issue بنانا بہت غیر ضروری ہے‘‘۔
چوں کہ پروگرام کی میزبان نے ریما عمر کے فقرے پر کسی منفی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا۔ چناں چہ سوال یہ ہے کہ کیا جیو بھی ریما عمر کے فقرے سے ’’متفق‘‘ ہے؟۔
اللہ کی پناہ حسن نثار جب اسلام پر بات کرتے ہیں تو ان کا انداز ایسا ہوتا ہے جیسے وہ غزالی دوراں ہوں اور وہ قرآن و سنت اور فقہ کا پور اعلم گھول کر پی گئے ہوں۔ لیکن ان کے فہم اسلام کا قصہ یہ ہے کہ وہ رپورٹ کارڈ کے ایک اور پروگرام میں فرما چکے ہیں کہ پردے کا حکم صرف امہات المومنین کے لیے تھا۔ یہ قرآن و سنت کی اتنی بڑی توہین تھی کہ اسلام ریاست کے لیے ’’مقدس‘‘ یا اہم ہوتا تو ریاست اتنی سی بات پر حسن نثار کو ’’غدار اسلام‘‘ قرار دے دیتی۔ اس لیے کہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمران معمولی معمولی باتوں پر غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کرتے رہتے ہیں۔ بہرحال حسن نثار نے فواد چودھری کے قمری کیلنڈر اور رویت کے حوالے سے کیا فرمایا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
’’پہلی بات یہ ہے کہ مذہب پر کسی کا اجارہ نہیں ہے۔ میں بے دین نہیں ہوں، لادین نہیں ہوں، یہ خاص ٹھیکے دار ہیں، جہاں تک اس مسئلے کا تعلق ہے بنجر ذہن کہتا ہے کہ مسواک کرنا سنت ہے جو منطقی سوچ ہے وہ کہتی ہے دانت صاف کرنا درست ہے، کیوں کہ Tools بدلتے رہتے ہیں۔ میں (کیلنڈر کے معاملے) میں سو فی صد فواد چودھری کے ساتھ کھڑا ہوں‘‘۔
مذہب پر علما کی ’’اجارہ داری‘‘ نہیں ہے۔ علما قرآن و سنت کے ماہر ہیں اور فواد چودھری اور حسن نثار سے زیادہ ماہر ہیں۔ چناں چہ وہ دین پر اتھارٹی بن کر کلام کرتے ہیں تو اپنی ’’علمی اہلیت‘‘ کی بنیاد پر۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ایک ڈاکٹر طبی معاملات پر، جرنیل عسکری معاملات پر، ماہر معاشیات معاشی امور پر اور ادب کا نقاد ادبی نکات پر اتھارٹی بن کر کلام کرتا ہے۔ مگر ڈاکٹروں، جرنیلوں، ماہرین معاشیات اور نقادوں کے حوالے سے کوئی نہیں کہتا کہ ان معاملات پر ان لوگوں کی ’’اجارہ داری‘‘ تھوڑی ہے۔ سب کہتے ہیں جب جرنیل عسکری معاملات پر اور ڈاکٹر طبی امور پر گفتگو کررہا ہو تو اس کی بات توجہ سے سنو۔ مگر علما مذہب پر گفتگو کرتے ہیں تو حسن نثار اور سلیم صافی جیسے صحافی کہتے ہیں مذہب پر علما کی اجارہ داری تھوڑی ہے۔
پروگرام میں بابر ستار نے مفتی منیب الرحمن جیسے جید عالم دین کی توہین، تذلیل اور تضحیک میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کیا فرمایا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمایئے۔ فرماتے ہیں:
’’دیکھیے جی میں تو مفتی منیب الرحمن کے ساتھ ہوں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں کسی Relevant Issue پر تو بات نہیں کرسکتے۔ اگر مفتی صاحب نہیں ہوں گے، دور بین لگاکے، موٹی عینک لگا کے وہ نہیں بیٹھے ہوں گے تو ہمارا ٹائم کیسے گزرے گا؟۔ ہم کیسے Relevant چیزوں میں اپنا ٹائم برباد کریں گے۔ تو میرا خیال ہے کہ مفتی منیب ایک Asset ہیں ہمارے۔ وہ ہمیں (اچھا) ٹائم گزارنے کا موقع فراہم کرتے ہیں‘‘۔
بابر ستار نے اس تبصرے میں مفتی منیب جیسے عالم دین کو تفریح مہیا کرنے والا یا Entertainer بنادیا ہے۔ انہیں مفتی صاحب کی عینک ’’موٹی‘‘ لگتی ہے اور دور بین دیکھنے کا انداز Entertain کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مفتی منیب اتنے ہی بُرے ہیں تو جیو انہیں اپنے پروگراموں میں کیوں بلاتا ہے۔ اس سے بھی اہم معاملہ بابر ستار یا جیو کو مفتی منیب کا چہرہ بُرا لگتا ہے تو وہ کہے کہ مفتی صاحب کی جگہ کسی اور کو رویت ہلال کا کام سونپا جائے۔ مگر رویت ہلال بہرحال شرعی تقاضا ہے۔ یہ تقاضا اتنا عیاں ہے کہ سرکاری اور درباری کہلانے والی اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ قبلہ ایاز نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ رویت ہلال شرعی تقاضا ہے اور کسی کیلنڈر سے یہ تقاضا پورا نہیں ہوتا۔ کالم ختم ہوا۔ اب آئیے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام پر کسی نئے حملے کا انتظار کریں۔