مہنگائی کی نئی لہر

ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری

مہنگائی اور بے روزگاری کے عوام پر پہاڑ توڑنے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت میں کوئی کہہ رہا ہے بس تین ماہ کی بات ہے اس کے بعد حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔ دوسرا وزیر یہ کہتا ہے کہ حالات ٹھیک ہونے میں کم از کم ایک سال لگے گا، جب کہ کوئی یہ رائے دیتا ہے کہ 2 سال میں ملکی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہوجائے گی اور اسی کے ساتھ عوام کے مسائل کم ہوجائیں گے۔ عید کے موقع پر عمران خان قوم کو پیغام دیتے ہیں کہ ہم ان شاء اللہ بہت جلد وطن عزیز کو معاشی و معاشرتی مشکلات سے نکال کر ریاست مدینہ کی طرز پر فلاحی ریاست بنائیں گے۔ اتنی متضاد باتیں سننے کے بعد عوام کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کی مانیں اور کس کی نہ مانیں۔
دوسری طرف درآمد شدہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے اس اعلان کے بعد کہ آئندہ مالی سال 2019-20ء کا محصولات کا صرف 5500 ارب ہوگا، تمام حکومتی ادارے، وزارت خزانہ، وزارت تجارت، ایف بی آر اور مرکزی بینک اس کام میں لگ گئے ہیں کہ کس طرح آئندہ سال یہ ہدف پورا کیا جائے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں ٹیکس دہندگان کی تعداد اور ٹیکسوں کی رقم مجموعی قومی پیداوار کے لحاظ سے بہت کم ہے اور معاشی عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ کم ٹیکس وصولی ہے۔ مگر یہ اضافہ آہستہ آہستہ ہی ممکن ہے۔ رواں مالی سال کا نظرثانی شدہ ٹیکس ہدف 4200 ارب روپے ہے جس میں 320 ارب روپے کا شارٹ فال ہے تو اس میں آپ ایک ہی سال میں 30، 35 فی صد اضافہ نہیں کرسکتے۔ ملک کے ممتاز ماہرین معیشت بھی اس ہدف کو ناممکن اور غیر عملی قرار دے رہے ہیں۔ جب کہ حکومت نے اس ہدف کے لیے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ ایف بی آر کے نئے چیئرمین شبر زیدی جو امور ٹیکس کے ماہر سمجھے جاتے ہیں وہ بھی پُرعزم ہیں اور وہ ایف بی آر میں انتظامی اور قانونی تبدیلیاں لارہے ہیں، ٹیکس اہلکاروں کے اختیارات میں کمی کررہے ہیں تا کہ وہ لوگوں کو ناجائز طور پر تنگ نہ کریں۔ دوسری طرف کاروباری طبقے کی رائے یہ ہے کہ ملک میں کاروبار ٹھنڈا پڑا ہے، معیشت میں جان نہیں ہے، شرح سود 13 فی صد سے اُوپر چلی گئی ہے، ایسے میں ٹیکس کس طرح بڑھ سکتا ہے۔ حکومت اس سلسلے میں 750 ارب روپے کے مزید ٹیکس لگانے کی تیاری کررہی ہے جس میں بجلی، گیس اور آئل کی قیمتوں میں اضافہ شامل ہے۔ اسی طرح پانچ بڑے صنعتی شعبے، ٹیکسٹائل، لیدر، پلاسٹک، گارمنٹس اور شوگر جنہیں زیرو ریٹڈقرار دے کر برآمدات میں ٹیکس سے استثنا دے دیا گیا تھا وہ رعایت ختم کی جارہی ہے جس سے تمام صنعت کار سخت برہم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ برآمدات پہلے ہی کم ہیں اس اقدام کا شدید منفی اثر ہوگا۔ مزید یہ کہ مختلف شعبوں کو جو رعایتیں حاصل ہیں وہ واپس لے لی جائیں گی، جن میں کھاد پر سبسڈی بھی شامل ہے۔ اس سے زراعت میں استعمال ہونے والی کھاد مہنگی ہوجائے گی اور زرعی شعبہ جو پہلے ہی مختلف مسائل کا شکار ہے زرعی پیداوار میں اس سے کمی آئے گی جس کا بالواسطہ اثر صنعتی شعبے پر ہوگا اور یہ تمام اقدامات مہنگائی کی ایک نئی لہر ملک میں لائیں گے۔ جیسا کہ اسٹیٹ بینک اپنے زرعی پالیسی بیان میں اظہار کرچکا ہے کہ ملک میں مہنگائی ہے اور اس میں مزید اضافہ ہوگا۔
جہاں تک ایکسٹرنل سیکٹر کا تعلق ہے اس کا حال بھی غیر مستحکم اور غیر یقینی ہے۔ سال رواں کے 10 ماہ میں برآمدات 19.2 ارب ڈالر، جب کہ اسپورٹس 465 ارب ڈالر، اس طرح 10 ماہ کا تجارتی خسارہ 26 ارب ڈالر ہے۔ سال کے اختتام تک یہ 32 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کو ترسیلات زر سال کے ختم ہونے تک 22 ارب ڈالر مل سکتی ہیں تو اگر برآمدی آمدن اور ترسیلات زر کو جمع کیا جائے تو بھی 19 ارب ڈالر کا فرق رہتا ہے۔ اس کے لیے ہم آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے پاس 8 ارب ڈالر رہ گئے ہیں، جب کہ آئندہ سال 9 ارب ڈالر کی غیر ملکی ادائیگیاں بھی کرنی ہیں تو اس صورت حال میں اگر تیل کی قیمت عالمی مارکیٹ میں کم ہوتی ہے تو اس سے پاکستان کے ایکسٹرنل سیکٹر کو سہارا مل سکتا ہے اور اگر امریکا ایران کشیدگی بڑھتی ہے اور تیل کی قیمت اوپر چلی جاتی ہے تو پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایکسٹرنل سیکٹر میں کچھ چیزیں پاکستان کے ہاتھ میں ہیں اور کچھ پر ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ لیکن اندرونی طور پر بجائے ٹیکسوں میں اضافہ کرنے کے غیر پیداواری اخراجات میں کمی کرکے بھی مالیاتی معاملات بہتر کیے جاسکتے ہیں۔ ویسے بھی جب آپ عوام سے قربانی مانگ رہے ہوں تو یہی اصول ایم این ایز، ایم پی ایز، وزرا اور مشیران اور دوسرے تمام اعلیٰ حکومتی اور اہلکاروں کو بھی کفایت شعاری پر عمل پیرا ہونا چاہیے اور خود وزیراعظم کو اس کی مثال بننا چاہیے۔ عوام کے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ سادگی اور کفایت شعاری کا وعظ کرنے والا وزیراعظم رمضان المبارک میں 156 افراد جن میں دوست، احباب، سسرالی، رشتہ دار اور دیگر افراد شامل تھے انہیں عمرے پر لے جایا جاتا ہے ایک طرف مدینہ جیسی فلاحی مملکت اور دوسری طرف یہ شاہانہ اخراجات، دیکھیں یہ تضاد کب ختم ہوتا ہے۔