جنگوں کی سالگرہ کے جشن اور عرس

284

برطانیہ میں پہلی عالم گیر جنگ سے لے کر اب تک لڑی گئی جنگوں کی یاد، جشن اور عرسوں کی صورت میں منانے کی عجیب وغریب رسم پڑ گئی ہے۔ 2014 میں پہلی عالم گیر جنگ کی ایک سویں سالگرہ منائی گئی۔ برطانیہ کے لیے تو یہ اس لحاظ سے جشن تھا کہ اس جنگ کے نتیجہ میں سلطنت عثمانیہ، صفحہ ہستی سے مٹ گئی اور فلسطین میں سلطنت عثمانیہ کی انتظامیہ کو شکست دے کر اسرئیل کے قیام اور فلسطینیو ں کی غلامی کی راہ ہموار کی گئی اور عراق، لبنان اور شام کی تقسیم کی بدولت مشرق وسطیٰ کا نیا نقشہ مرتب کیا گیا۔ پھر 2018 میں دوسری عالم گیر جنگ کی فتح کا جشن منایا گیا۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ دوسری عالم گیر جنگ کے بعد یورپ میں جنگوں کے خاتمے کے لیے جو یورپی یونین قائم کی گئی اور جس کے نتیجے میں پچھلے ستر سال سے یورپ میں امن چین اور اقتصادی خوشحالی کا دور دورہ تھا اب برطانیہ اس سے آزادی کے لیے بیتاب ہے اور بریگزٹ کے جنوں میں مبتلا ہے جس نے برطانیہ کے سیاسی نظام کی جڑیں کھوکھلی کردیں ہیں اور اس کی معیشت کا مستقبل غیر یقینی کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے۔
اب 4 جون کو برطانیہ کی بندرگاہ پورٹ سمتھ میں 1944 کے ڈی ڈے کی پچھترویں سالگرہ منائی گی جب کہ یورپ کو ہٹلر کے فوجی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی چھاتا بردار فوجوں نے فران کے ساحل نار منڈی پر زبردست ہلہ بولا تھا۔ اس سالگرہ میں شرکت کے لیے صدر ٹرمپ کو شاہی مہمان کی حیثیت سے دعوت دی گئی تھی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اسی ڈی ڈے کی اب تک پانچ بار سالگرہیں منائی جا چکی ہیں۔ 1994 میں پچاسویں سالگرہ منائی گئی تھی اس کے بعد ساٹھویں سالگرہ، پینسٹھویں سالگرہ اور سترویں سالگرہ اور اب پچھترویں سالگرہ منائی گئی۔ ان تمام سالگرہوں کے جشن میں برطانیہ کی یہ کوشش رہی ہے کہ نارمنڈی کے ساحل پر چھاتا بردار حملے اور یورپ کو ہٹلر کے فوجی تسلط سے آزاد کرانے کا سہرا اپنے سر لیا جائے جب کہ اس میں امریکا اور دوسرے اتحادیوں کی فوجوں کا بھی اہم رول رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برطانیہ کے عوام کو جنگوںکے نشے کا عادی بنادیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ اب تک پہلی عالم گیر جنگ اور نہ دوسری عالم گیر جنگ کی یاد بھلانا چاہتے ہیں، اخبارات کے کیلنڈر جنگوں کی سالگرہوںکی تاریخوں سے اٹے پڑے ہیں، کتابوں کی دکانیں جنگوں کے بارے میں کتابوں سے بھری پڑی ہیں اور جنگو ں کی سالگرہوں پر ٹیلی وژن چینلز پر ماضی کی جنگوں کی جھلکیاں اور ان میں حصہ لینے والے سابق فوجیوں سے تفصیلی انٹرویوز دکھائے جاتے ہیں۔ یہ بڑے خطرے کی بات ہے کہ کوئی قوم، پرانی جنگوں کی یاد جشن کی صورت میں منائے، اس سے محض جنگوں کی تعظیم اور تکریم بڑھتی ہے، جنگی سورمائوں کی تعریف و توصیف ہوتی ہے جس سے قوم پرستی کو بڑھاوا ملتا ہے۔ نہ جانے امن کا جشن کیوں نہیں منایا جاتا۔
پہلی عالم گیر جنگ جب شروع ہوئی تھی تو یہ کہا گیا تھا کہ یہ اگلی جنگ کے خاتمہ کے لیے لڑی جارہی ہے لیکن اس کے خاتمے کو بیس سال بھی نہیںگزرے تھے کہ دوسری عالم گیر جنگ بھڑک اٹھی۔ پہلی عالم گیر جنگ میں نوے لاکھ فوجی اور ستر لاکھ شہری مارے گئے۔ انیس سال بعد شروع ہونے والی دوسری عالم گیر جنگ میں ساڑھے آٹھ کروڑ فوجی اور شہریوں کی جانیں گئیں۔ عام طور پر ہر جنگ کے آغاز پر یہی دلیل دی جاتی ہے کہ یہ جنگ آئندہ جنگ کے خطرہ کے خاتمہ کے لیے لڑی جا رہی ہے لیکن اس جنگ کے فوراً بعد دوسری جنگ کی تیاری اور منصوبہ بندی شروع ہو جاتی ہے۔ ویسے بھی اب جنگیں تجارت کا ذریعہ بن گئی ہیں اور جنگ کے لیے ٹیکنالوجی کو جو فروغ مل رہا ہے اس کے پیش نظر جنگوں کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
1945میں جرمنی کی شکست کے بعد مغرب نے اپنے فوجی اقتصادی مفادات کے تحت جرمنی کو بڑے پیمانے پر معاشی امداد دی۔ اس کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ سویت یونین کے خلاف ایک بڑا مورچہ قائم کیا جائے۔ بلاشبہ دوسری عالم گیر جنگ کے بعد بڑے پیمانے پر سرد جنگ نے ایک آتشیں جنگ کو روکنے میں مدد دی لیکن اس دوران آتشیں جنگ کا خطرہ برابر بڑی طاقتوں کے ذہنوں پر چھایا رہا جو مغرب میں ناٹو اور اس کے مقابلہ میں واسا معاہدہ کی صورت میں سامنے آیا۔ پاکستان بھی اس سرد جنگ سے نہ بچ سکا۔ 1954 میں امریکی فوجی معاہدوں میں شرکت کا مقصد پاکستان کو سرد جنگ کے اولین مورچہ پر دھکیلنا تھا جس کا پاکستان کی معیشت اور پاکستان کی سیات پر مہلک اثرات مرتب ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی کی جنگوں کی یاد میں عرسوں سے جنگوں کی تباہی اُجاگر کرنے اور ان سے سبق لینے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور نہ جنگوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے جتن سوچے گئے۔ اس کی جگہ جنگوں کی تعظیم و تکریم بڑھی ہے یہی وجہ ہے کہ پچھلی دو دہایوں میں افغاستان، عراق، شام، لیبیا، فلسطین اور یمن میں ہولناک جنگیں بھڑکی ہیں اور نئی جنگو ں کے خطرات کا سلسلہ برابر جاری ہے۔ اب صدر ٹرمپ ہی کو دیکھ لیںکہ وہ اس وقت جب ڈی ڈے کی سالگرہ کے جشن میں شرکت کر رہے تھا ان کی انتظامیہ، ایران کے خلاف جنگ کے بہانے ڈھونڈھ رہی تھی اور نئی جنگ کے منصوبے بنارہی تھی۔