وفاق جی ڈی پی کا 5فیصد تعلیم کیلیے مختص کرے،حسن بلال ہاشمی

109

فیصل آباد(وقائع نگار خصوصی )اسلامی جمعیت طلبہ کے ڈویژنل ناظم حسن بلال ہاشمی،جنرل سیکرٹری حسیب خالدنے اپنے مشترکہ بیان میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جی ڈی پی کا 5فیصد تعلیم کے لیے مختص کیا جائے،گھوسٹ تعلیمی اداروں کو ختم کیا جائے،سیاسی بنیادوں پر اساتذہ کی بھرتی کی حوصلہ شکنی کی جائے، تعلیمی بجٹ میں کرپشن کے خاتمہ کے لیے عملی اقدامات کیے جائے۔رہنمائوں نے کہاکہ شعبہ تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی اور مضبوظ بنیادوں کی علامت ہے مگر افسوس پاکستان کا شعبہ تعلیم حکمراں طبقے کی ترجیح کسی بھی دور میں شامل نہیں رہا۔اس وقت بھی شعبہ تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو سرکاری تعلیمی اداروں کی کمی،سرکاری تعلیمی اداروں تعلیم کا گرتا ہوامعیار، کم بجٹ،تحقیق کی کمی، گھوسٹ تعلیمی ادارے اور دیگر کئی مسائل کا شکار شعبہ تعلیم ہمارے سامنے ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں برسوں سے تعلیم کا شعبہ عدم توجہ کا شکار ہے۔نت نئی تعلیمی پالیسیاں،بین الاقوامی پروگرامز برائے تعلیم،ایجوکیشن کانفرنسزاور مذاکرے اس شعبہ کے لیے کبھی آب حیات نہ بن سکے۔انہوں نے کہا کہ ملک میںدو کروڑ تیس لاکھ بچے سکول ہی نہیںجا پا رہے اور جو جاتے ہیں ان میں تقریبا نصف پرائمری کے بعد ہی تعلیم کو خدا حافظ کہہ دیتے ہیں۔قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہمارے ہاںشرح خواندگی کے اعداد و شمار کبھی تسلی بخش قرار نہیں پائے۔گزشتہ سال جاری ہونے والی اقتصادی سروے کی رپوٹ کے مطابق پاکستان کی 58فیصد آبادی خواندی ہے۔آبادی کے لحاظ سے پاکستان پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں بچوں کو سکول داخل کروانے کی شرح60فیصد جبکہ بلوچستان میں 39فیصد ہے۔سرکاری تعلیمی اداروں میں پانچویںجماعت کے تقریبا آدھے بچے دوسری جماعت میں پڑھائی جانے والی اردو تک نہیںپڑھ سکتے۔انہوں نے کہا کہ قابل غور امر یہ ہے کہ سرکاری رپوٹ کے مطابق ہمارے شعبہ تعلیم کا یہ عالم ہے جبکہ غیر سرکاری تنظیموںکے اعداد و شمار تو کہیں نیچے ہیں اور یہاں ہر اس شخص کو خواندہ تسلیم کیا جاتا ہے جو کسی بھی زبان کا ایک اخبار پڑھ لے یا سادہ زبان میں اخبار لکھ سکے۔پوری دیا میں خواندگی کی شرح اگر دیکھی جائے تو یورپی ممالک سب سے آگے ہیں۔ پاکستان کے مقابلے مین بھارت خواندگی کی شرح 74 جبکہ چین کی شرح خواندگی 93فیصدہے۔ بہر حال ملکی اور عالمی سطح پر ہونے والی تنقید پر بالآخر پاکستانی حکمرانوں کو بھی تعلیم کی اہمیت کا کچھ ادراک ہواہے کس کی بنا پر وفاقی اور صوبائی حکو متوںنے حالیہ بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص رقم میں واضح اضافہ کیا ہے۔تمام صوبوں میں بجٹ کی زیادہ مقدار ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسٹاف کی تنخواہوں اور دیگر مراعات کی نظر کی گئی۔پنجاب حکومت نے گزشتہ سالوں کی نسبت تعلیمی بجٹ میں 26 فیصد کمی کی،جبکہ صوبہ خیبر،سندھ اور بلوچستان کی حکو متوں نے تعلیمی بجٹ میں اضافہ کے نعرے لگانے کے با وجود اس حوالے سے خاطر خواہ اودامات نہیں کیے۔اس صورتحال میںکو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری حکومتیں تعلیمی معیار کی بہتری کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہیں۔ ورلڈ بنک کے مطابق پاکستان کی خام آمدنی کا حجم 300 ارب ڈالر ہے اور پاکستان مشکل سے 2فیصد تعلیمی شعبے پر خرچ کرتا ہے۔جس کا 80فیصد سے زاہد انتظامی اخراجات اور کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔سعد بن ہارون نے کہا کہ یونیسکو کے مطابق ہر ملک کو اپنے جی ڈی پی کا کم از کم 4فیصد شعبہ تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے۔ تعلیم کے لیے مختص کیے جانے والے مجموعی ملکی پیدا وار جی ڈی پی کا 4فیصد محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔