ترجیحات ہمیں خود ہی طے کرنی ہیں

250

 

 

بی بی سی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں تعینات امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دنیا اردن اور اسرائیل کے درمیان، بقول اْن کے، ’’ایک ناکام فلسطینی ریاست‘‘ کی حمایت نہیں کرے گی نیز یہ کہ اسرائیل کو حق ہے کہ وہ غربِ اردن کے کچھ حصوں کو ضم کر لے اگرچہ ایسی کارروائی بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہوگی۔ اپنے بیان میں مزید زور پیدا کرتے ہوئے انہوں دلیل کے طور پر یہ بات بھی کہی کہ اگر سیکورٹی کی وجہ سے اسرائیل اپنی افواج کو غربِ اردن میں رکھتا ہے تو یہ ایسے ہی ہو گا جیسے امریکا نے اپنی افواج جرمنی، جاپان اور جنوبی کوریا میں تعینات کی ہوئی ہیں۔ لگتا ہے کہ اسرائیل میں تعینات امریکی سفیرڈیوڈ فریڈ مین کا یہ بیان اگر امریکی پالیسی کا ایک حصہ بھی ہے تب بھی وہ اس بیان کو اپنی ذات ہی سے منسلک رکھنا چاہتے ہیں اس لیے کہ جب ان سے دریافت کیا گیا کہ ’’صدر ٹرمپ کا کیا ردعمل ہوگا اگر اسرائیلی وزیرِ اعظم اپنے تئیں اپنے وعدے کے مطابق غربِ اردن میں یہودی بستیوں کو اسرائیلی ریاست میں یکطرفہ طور پر ضم کرنا شروع کر دیں‘‘۔ تو انہوں نے اس کا واضح جواب دینے سے گریز کیا۔
اسرائیل میں تعینات امریکی سفیر کی اس بات میں ایک بہت ہی بڑا تضاد بھی موجود ہے کیونکہ ایک جانب تو وہ یہ فرماتے ہیں کہ اسرائیل کو اس بات کا مکمل حق ہے کہ وہ غرب اردن کے کچھ حصوں کو اسرائیل میں ضم کر لے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ایسا کرنا قطعاً غیر قانونی ہوگا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیا کی نظر میں یا اقوام عالم کے طے شدہ قوانین کی روشنی میں ایک کام غیر آئینی و غیر قانونی ہے تو پھر کسی بھی ملک کے کچھ حصوں کو اپنے ملک میں ضم کر لینا کیسے کسی ملک کا حق کہلایا جاسکتا ہے؟۔ امریکی سفیر یہ بات بھول رہے ہیں کہ ’’اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق غربِ اردن کا علاقہ ایک مقبوضہ خطہ ہے اور اس پر تعمیر ہونے والی یہودی بستیاں غیر قانونی ہیں۔ غربِ اردن پر 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے قبضہ کیا تھا۔ ان کی یہ دلیل کہ امریکا کی سیکورٹی فورسز کا مختلف ممالک میں موجود ہونا جس طرح جائز ہے بالکل اسی طرح اسرائیل بھی اپنی سیکورٹی کے لیے ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے، سراسر غیر قانونی اور ناجائز ہے۔ اول تو یہ کہنا ہی غلط ہے کہ امریکا نے اگر دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی فورسز اتاری ہوئی ہیں یا ان ممالک کے سمندروں کے نزدیک اپنی افواج کو تعینات کیا ہوا ہے وہ قانوناً جائزہے، اس لیے کہ کسی بھی آزاد و خود مختار ملک کے گرد کسی دوسرے ملک کی افواج کی تعیناتی اس ملک کی آزادی و خود مختاری پر ایک کھلا حملہ ہے۔ اب اگر طاقت کو بنیاد بنا کر امریکا اپنے ہر فعل کو جائز اور قانونی سمجھ بیٹھا ہے تو یہ بات مجبوری میں تو برداشت کی جاسکتی ہے لیکن فورسز کی یہ تعیناتی اقوام عالم کے نزدیک کسی طور بھی جائز یا قانونی قرار نہیں دی جاسکتی۔ اس انٹرویو کے پسِ پردہ جو اصل حقائق ہیں وہ کمزور ممالک کو دو ٹکڑے روٹی کا لالچ دینے کے سوا اور کچھ نہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بحرین میں امریکا ایک ایسی کانفرنس کا انعقاد کروا رہا ہے جس میں اسے امید ہے کہ اگر فلسطینی امریکا کے قیامِ امن کے فارمولے کو قبول کر لیں تو انہیں بہت زیادہ اقتصادی فائدہ ہو گا۔ بد قسمتی سے او آئی سی کی وہ کانفرنس جس میں وزیر اعظم پاکستان شریک بھی ہوئے اور خطاب بھی کیا، اس میں انہوں نے فلسطین کو تقسیم کیے جانے کے فارمولے کو تسلیم کیا۔ بظاہر تو ان کا مقصد اس قضیے اور خون خرابے کو روکنا ہی مقصود رہا ہوگا لیکن جس عظیم مقصد کے لیے فلسطینی قربانیاں دیتے چلے آ رہے ہیں، کیا تقسیم کا کوئی بھی فیصلہ ان کے لیے قابل قبول بھی ہوگا؟۔ اگر پاکستان فلسطین کی تقسیم کو مان رہا ہے اور اسے جائز قرار دے رہا ہے تو پھر کیا کشمیر پراس کا موقف کمزور نہیں پڑ جائے گا؟۔
امریکا یا دنیا کے طاقتور ممالک کی ترجیحات کیا ہیں اور دنیا کے وہ ممالک جو چاروں جانب سے مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں اور جن کے عوام اقتصادی بد حالی کی اس انتہا تک پہنچے ہوئے ہیں جہاں ان کو دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں، وہ اپنا پیٹ بھرنے سے آگے سوچنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ دنیا سے قرضہ لیکر گزارا کرنا اور قرضے کے حصول کے لیے گھٹنے، ماتھا اور ناک تک رگڑنا ان کو منظور ہے۔ ایسے عالم میں اگر ان کو اپنی حمیت و غیرت کا سودا کرکے ایک بھاری رقم ملنے کی نوید سنائی دے رہی ہو تو وہ ایسا سنہری موقع کسی صورت بھی گنوانے کے لیے تیار نہیں ہوںگے۔ اگر میری اسی بات کو پیش نظر رکھ کر امریکی سفیر کی اس آخری بات کو کہ ’’اگر فلسطینی امریکا کے قیامِ امن کے فارمولے کو قبول کر لیں تو انہیں بہت زیادہ اقتصادی فائدہ ہو گا‘‘، تو کیا کسی بھی مشکلات میں گھری اور نانِ شبینہ کی ترسی کسی بھی قوم کا اپنا سودا کر لینا کوئی انہونی بات ہوگی۔ بھوک اور قتل و غارت میں گھرا مجبور و بے کس انسان کبھی کبھی ایسا کرنے پر مجبور ہو ہی جایا کرتا ہے۔
پاکستان میں موجودہ حکمران طبقہ مسلسل یہ بات کہتا چلا آرہا ہے کہ ایک دو سال کی مشکل صورت حال کے بعد پاکستان کے عوام بہت خوشحالی کا دور دیکھیں گے۔ نوکریوں کی ریل پیل ہوگی۔ لوگ باہر جانا بھول جائیں گے بلکہ باہر جانے والے برق رفتاری سے پاکستان کی جانب لوٹ رہے ہوںگے۔ ایک کروڑ نوکریاں پاکستانیوں کو ملیں گی اور بے گھروں کے لیے 50 لاکھ گھر تعمیر کرکے دیے جائیں گے۔ ان سارے دعوؤں کے پیچھے کیا موجودہ حکومت کی اب تک کوئی ٹھوس منصوبہ بندی دکھائی دیتی ہے؟۔ کیا کارخانے بن رہے ہیں۔ کیا ملیں لگائی جارہی ہیں؟۔ کیا کاشت کاری کے رقبوں کو وسعت دی جا رہی ہے یا آسمان سے ڈالروں کی برسات ہونے والی ہے؟۔ اگر ایسا کچھ نہیں تو یہ سمجھ لینا کہ حکمرانوں کی جانب سے اس قسم کا مسلسل عزم اور دعوں کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی ’’معجزاتی‘‘ بات ضرور پوشیدہ ہوگی، عقل و فہم سے بالا تر نہیں۔ کیا ان ساری باتوں کی روشنی میں یہ ممکن نہیں کہ ہم طاقتور ممالک کی اگر ساری باتوں کو تسلیم کرلیں اور امریکی سفیر کی یہ بات کہ ’’اگر فلسطینی امریکا کے قیامِ امن کے فارمولے کو قبول کر لیں تو انہیں بہت زیادہ اقتصادی فائدہ ہو گا‘‘۔ تو کیا پاکستان ہر قسم کی مشکل صورت حال سے باہر نکل سکتا ہے۔ آغاز تو پاکستان کے وزیراعظم نے کانفرنس میں کر ہی دیا ہے اور وہ فلسطین کی تقسیم کی بات تمام مسلمان ممالک کے سربراہوں کے کانوں سے گزار ہی چکے ہیں۔ ان کی اس بات پر پورے عالم اسلام کا کوئی بھی منفی رد عمل سامنے نہ آنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی اپنی بادشاہتوں کو بچانے اور اپنی اپنی اقتصادی صورت حال کو بہتر رکھنے اور بنانے کے لیے اپنی ہر حمیت و غیرت کا سودا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان ممالک کی فہرست سے پاکستان کیسے باہر رہ سکتا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں جو کچھ بھی ہوتا رہا وہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہمیں دھن دولت دے کر ہمارا سب کچھ خریدا جا سکتا ہے۔
ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھر، گھر گھر خوشحالی کے یہ سارے دعوے محض دعوے نہیں ہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے اور ایسا ہوجانا ناممکن بھی نہیں، بس اس کے لیے اپنا جسم، جان، ایمان، غیرت، حمیت اور اپنی روح کا سودا کرنا ہے۔ مر تو شاہ کو بھی جانا ہے اور فقیر کو بھی، غیرت مند کو بھی اور بے غیرت کو بھی، ایمان والے کو بھی اور کافر کو بھی، اب قوم خود فیصلہ کرلے اسے گیدڑ کی طرح بے شرمی کی زندگی گزارنی ہے یا شیر کی طرح عزت کے ساتھ مر جانا پسند ہے۔